گزشتہ ایک سال سے پنجاب کی تقریباََ تمام سرکاری جامعات مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کی منتظر ہیں۔ اِس دوران پَرووائس چانسلرز کو ’وائس چانسلرز کے عہدے کاچارج دیا گیا۔ مختلف سرکاری جامعات کے قوانین کے مطابق اِن پَرووائس چانسلرز کو محض معمول کے کام کرنا تھے۔ جن میں تنخواہوں کے بِل پا س کرنا، کلاسوں میں طلبہ و طالبات کی حاضری کویقینی بنانا اور دیگر معمولات کو سرانجام دینا شامل تھا۔ قوانین کے مطابق یہ پَرو وائس چانسلرز کسی بھی صورت میں ’وائس چانسلر کے اختیارات استعمال‘ نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ اِنہیں محض وائس چانسلرکے عہدے کے فرائض سرانجام دینے تھے مگر کچھ پَرو وائس چانسلرز جونہی وائس چانسلرز کی کْرسیِ اقتدار پہ براجمان ہوئے تو اْنہیں شاید محسوس ہوا ہوگا کہ اب وہ اگلے چار سال تک کرسی ِ اقتدار پہ قائم رہیں گے۔ اگرچہ سرکاری ملازم کی کْرسی کے پائے ریت پہ ٹِکے ہوتے ہیں مگر اِن پَرو وائس چانسلرز کی تو کْرسی ہی ریت کے ذرات سے بنی ہوتی ہے۔ کچھ پَرووائس چانسلرز کو جلد ہی اپنی قانونی حدود و قیود کا علم ہوگیا۔اِس لئے اْنہوں نے تعیناتیوں سمیت دیگر معاملات کو چھیڑنے سے گریز کیا۔ مگر کچھ حضرات کے کرسی پہ بیٹھتے ہی اْن کے لاغر جسموں میں بجلی کی سی توانائی دوڑنے لگی۔ ہر سرکاری جامعہ میں اساتذہ اور انتظامیہ کے کچھ سیاسی گروپس بنے ہوتے ہیں۔ جس سیاسی دھڑے کا پَرووائس چانسلر تعینات ہوااْس نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیاکہ سابقہ وائس چانسلر کے تعینات کردہ سبھی اَفراد کو عہدوں سے ہٹا دیا اور اپنے سیاسی گروپ کے اہل/نااہل افراد کو تعینات کردیا۔ اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سرکاری جامعات میں طلبہ و طالبات کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں، مالی معاملات اور دیگر اَمور کاٹھیک ٹھاک چلتا ہوا پہیہ رْک گیا۔ پَرو وائس چانسلرز نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انکوائریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ سیاسی مخالفین کو سکینڈلائز کیا گیا۔ اہل افراد کی کردار کشی کی گئی۔میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ اِن پرووائس چانسلرز نے ایک لمحہ کے لئے یہ سوچنا گوارا نہ کیا کہ ذاتیات پہ مبنی اقدامات کے طلبہ و طالبات اور خود جامعات پہ کیا منفی اَثرات مرتب ہونگے۔ اِن نا اہل افراد نے اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے بدترین تدریسی و انتظامی اقدامات کئے۔ مثلاََ نااہل افراد کو بڑے عہدوں پر بٹھایا جس نے چلتی ہوئی جامعات کی تعمیر و ترقی کو ریورس گیر لگ گیا۔ اہل افراد کی کردار کشی کرنے والے افراد کو ہر طرح کی چھٹی دی گئی۔ بلکہ ایسے افراد کو وائس چانسلر ز کے سیکرٹریٹ میں بیٹھے کینہ پرور افراد کی پشت پناہی سے سرکاری جامعات کے لیگل ونگز نے بھرپور معاونت فراہم کی۔ اِن کا مقصد محض یہی تھا کہ کسی طرح اہل افراد کی کردار کشی کی جائے اور اپنی نااہلی چھپائی جائے۔ جس کا بدترین نتیجہ داخلوں میں کمی کی صورت میں برآمد ہوا۔ جامعات کی آمدنی کم ہوئی۔مالی نقصان ہوا۔ جس پر مزید اپنی نااہلی چھپانے کی خاطر اِن پَرووائس چانسلرز نے باقائدہ اشتہار کے نتیجے میں سلیکشن بورڈ ز سے منتخب شدہ اور سنڈیکیٹ کے اجلاسوں کی منظوری کے باوجود جامعات سے سرکاری افسران کو نکالنے کی مہم جوئی شروع کردی۔ مختلف جامعات میں اَساتذہ اور انتظامی افراد کی جانب سے احتجاج شروع ہوگئے۔ مگر اِ نے اپنی نااہلی کا اعتراف پھر بھی نہیں کیا بلکہ ہر سرکاری فورم کو گمراہ کرنے کی کوشش میں جْت گئے۔ اَب معاملات اِس حدتک دگرگوں ہیں کہ تقریباًََ سرکاری جامعات میں ہْو کا عالم ہے۔ البتہ پنجاب یونیورسٹی کو اِس حوالے سے مْبرا حاصل ہے کیونکہ وہاں پرووائس چانسلر نے کسی زور زبردستی کو ماننے سے انکار کردیا۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے جہاں اپنے دروازے سبھی کیلئے کھول دیئے،وہیں اْنہوں نے ببانگ ِ دہل اعلان کیا کہ وہ صرف قانونی کام کریں گے۔ کسی کی غیر قانونی سفارش نہیں مانی جائے گی۔میرٹ کی اِس پالیسی کانتیجہ یہ ضرور نکلا کہ انہوں نے نو سال سے رْکا ہوا ’بْک فیئر‘منعقد کرالیا۔ اب ہرطرف سے دادو تحسین وصول کررہے ہیں۔ مگر باقی جامعات جہاں پَرو وائس چانسلرز تعینات ہیں وہاں حالات جوں کے توں ہیں۔ دوسری جانب نئی صوبائی حکومت تشکیل پاچکی ہے۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی راہ میں جہاں دیگر پہاڑ جیسے اْمور حائل ہیں۔وہیں نئی وزیراعلیٰ کو تیس سے زائد سرکاری جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کو یقینی بنانا ہے۔ پہلے مرحلے میں ڈاکٹر فرخ نوید کو سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ تعینات کردیا گیاہے۔ اْمید ہے جلد وائس چانسلرز کی تعیناتی کیلئے سَرچ کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی اور باقائدہ اشتہار کے بعد اِس عمل کو مکمل کرلیا جائے گا۔ مختلف ذرائع سے خبریں گردش کررہی ہیں کہ بانی چیئرمین پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کا نام سرچ کمیٹی کی سربراہی کے لئے حتمی منظوری کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ ستائس سال اقوام ِ متحدہ کے تین سے زائد شعبہ جات کی سربراہی کرچکے ہیں۔ اِس لئے انہیں بین الاقوامی سطح پہ ہائرایجوکیشن کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ شنید ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اپنے پہلے دورِ اقتدار سے ہی کچھ ایسے اقدامات اْٹھانا چاہ رہی ہیں ۔ اِس صورتحال میں پروفیسر نظام بلاشبہ ایک بہترین انتخاب ہونگے۔ تیس سے زائد جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی بلاشبہ ایک بڑا مرحلہ ہے۔ مریم نواز شریف اگر میرٹ پر اِس مرحلے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو یقینا آئندہ وہ جس پروجیکٹ کا آغاز کریں گے اْنہیں نہ صرف عوامی سطح پر حمایت حاصل ہوگی بلکہ اہل ِ فکر، دانشور، وائس چانسلرز اور میڈیا کے نامور اینکرز اور تجزیہ نگاروں سے ستائشی حوصلہ افزائی ملے گی۔البتہ مستقل تعینات ہونے والے وائس چانسلرز کے سامنے جہاں دیگر بڑے مسائل پھْن پھیلائے بیٹھے ہیں، وہیں اِن پَرو وائس چانسلرز کے غیر قانونی اقدامات کی تلافی کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ چونکہ اِن پَرو وائس چانسلرز کو بھی بخوبی علم ہے کہ مستقل وائس چانسلرز تعینات ہوتے ہی اِن سے پوچھ گچھ کریں گے اِس لئے خبریں گردش کررہی ہیں کہ یہ آخری حد تک اہل افراد کی مستقل تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ دیکھتے ہیں نئی وزیراعلیٰ پنجاب اِن مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہیں۔