پاکستان میں سیاست دان بالعموم بیان بازی میں ایسی بے مقصد باتیں بھی کر جاتے ہیں جن کا پورا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔اس ضمن میں دلچسپ اور اہم بات یہ کہ اپنی کہی ہوئی بات کو پورا نہ کرنے پر نہ تو انہیں کوئی پشیمانی ہوتی ہے اور نہ اس بات کا کوئی خوف کہ وہ اس پر عوام کا سامنا کیسے کرپائینگے۔ بیان بازی میں نہ سیاسی اخلاقیات کا پاس رہتا ہے ، نہ ہی جمہوری اقدار کا لحاظ اور نہ ہی اپنے کہے گئے الفاظ کی حرمت کا کوئی خیال ! جس سیاسی جماعت پر محترمہ کے قتل کا الزام لگایا، اسی جماعت کے اہم قائد کو بوقت ضرورت اور مصلحت ڈپٹی وزیر اعظم بھی بنا دیا گیا ۔ایک سیاسی جماعت کے قائد کی جانب سے ایک سیاسی رہنما کو اپنا ملازم بھی رکھنا گوارا نہیں تھا مگر یہ منظر بھی سب نے دیکھا کہ وہی سیاست دان ان کی حکومت میں وزارت ریلوے اور داخلہ جیسی اہم وزارتوں پر فائز رہا۔بے شمار مثالیں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں اسی طرح انتخابات کے موقع پر کئے جانے والے وعدے بھی محض وعدے ہوتے ہیں ان کے ایفا ء کا پاس کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طرز عمل سیاسی اور عوامی سطح پر قابل گرفت بھی نہیں ۔ایک سیاسی قائد کی جانب سے دیا گیا یہ بیان تو اب سند کا درجہ حاصل کر گیا ہے کہ سیاست میں کئے گئے وعدے قرآن و حدیث نہیں کہ جنھیں تبدیل نہ کیا جاسکے۔تاہم ہمارے خیال میںاس ہنر میں موجودہ وزیر اعظم جناب شہباز شریف صاحب کمال مہارت کے حامل نظر آتے ہیں۔ جوش خطابت میں وہ خود کو ہر حد آداب اور سیاسی تقاضوں سے آزاد ہو کر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کا نبھانا مشکل ہو یا بعد ازاں اس پرسیاسی ہزیمت ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا یہ بیان ،جب وہ پنجاب کے وزیر اعلی تھے ، جس میں انہوں نے ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی تھی، آج ان کی وزارت عظمی ان ہی کی مرہون منت ہے نہ جانے وہ انکا کس طرح سامنا کر پاتے ہونگے۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستانی سیاست دان مضبوط اعصاب اور نفسیات کے مالک ہیں ۔ اسی طرح ا س سال اپریل میں عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعدجب وفاق میں تیرہ جماعتی اتحاد پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہوئی اور شہباز شریف نے مسند وزارت عظمی سنبھالی ان کے بیانات اور اقدامات دونوں ہی عجلت پسندی کا شکار ہوئے جو ان کے مزاج کا شعار ہے۔ ۔ حلف لیتے ہی انہوں نے تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کا اعلان کردیا جسے واپس لینے کے لئے وزارت خزانہ نے انہیں مجبور کیا،اسی کے ساتھ انہوں نے ہفتہ کے روز کی چھٹی کے خاتمہ کااعلان بھی کیا جس پر بعد ازاں مختلف اداروں کے احتجاج کے بعد پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔یہ دونوں اقدامات ظاہر ہے اداروں کی مشاورت اور ان کی صورت حال سے آگہی کے بعد ہی کئے جانے چاہیئے تھے مگر شہباز شریف صاحب کی تعجیل پسندی نے انہیں اس کا موقع ہی نہیں دیا ۔ اسی کے ساتھ ساتھ جناب وزیر اعظم جوش خطابت میں ایسے دعوے اور اعلانات بھی کر گئے جن کا پورا کیا جانا وہ خود بھی جانتے تھے کہ ممکن نہیں۔وزیر اعظم صاحب ! مئی 2022میں وزارت عظمی کا منصب سنبھا لنے کے اگلے ماہ ہی خیبر پختون خوا کے شہر بشام میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ میں اپنے کپڑے بیچ دونگا مگر غریب کا آٹا مہنگا نہیں ہونے دونگا۔کچھ خبر بھی ہے جناب آج پورے ملک میں آٹے کی کیا قیمت ہے آج آٹا 150روپے کلوسے بھی زیادہ ہو چکا ہے لوگ سستے آٹے کی تلاش میں جان تک گنوا رہے ہیں ۔ مگر شاید آپ کو خبر نہیں ورنہ آپ کے کپڑے فروخت کئے جانے کی اطلاع اب تک آجانی چاہیئے تھی۔ آپ آج بھی اسی طرح قیمتی لباس میں ملبوس اورمطمئن نظر آرہے ہیں۔آپ کی یہ خوش لباسی اور طمانیت سلامت رہے مگر کچھ خبر رعایا ( ابھی پاکستانیوں کی اکثریت شہریت کے درجے پر فائز نہیں ہو پائی ہے۔) کی بھی لیجئے کہ وہ کس حال میں ہے۔ اشیائے خورد و نوش ، ادویات ،اور دیگر سامان زیست دستیاب بھی ہے یا نہیں اور اگر دستیاب ہیں تو کس قیمت پر ؟ آخر کب تک ایفا ء نہ کئے جانے والے وعدوں اور جھوٹی تسلیوں سے سیاست کی جاتی رہے گی ؟ شہباز شریف سمیت تمام ہی سیاست دانوں کو اپنے قول و فعل کے تضادات ترک کرنے ہوںگے ۔ بیانات اور اعلانات کو ز مینی حقائق سے ہم آہنگ ہونا چاہیئے ۔ اسی طرح وہ اپنی قومی اور بین الاقوامی ساکھ برقرار رکھ سکتے ہیں۔حکمرانوں کو اب عوامی مشکلات کا ازالہ کرنا ہو گا محض خوش نما بیانات ، غیر حقیقی اعلانات اور وعدوں سے اب قوم کو بہلانا ممکن نہیں ۔ معیشت کی مشکلات ،اعداد وشمار کی پیچیدہ گتھیاں،ڈالر کی بے قابو اڑان ، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ، قرضوں کی عدم دستیابی کیا یہ ساری صورت حال عوام کی پیدا کردہ ہے بالکل نہیں اس کی تمام تر ذمہ داری حکمران اشرافیہ کی ہے جو گزشتہ 75 سالوں سے ریاست کے نام پر عالمی اداروں سے حاصل کردہ قرضوں پر موجیں کرتی رہی ہے۔ ان قرضوں سے ریاست اور عوام کو کیا ملا ؟کیا ریاست اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکی ؟ کیا زرعی اور صنعتی ترقی کو ممکن بنایا جاسکا ؟ کیا عوام خوشحال ہوئے ؟کیا ریاست کا معاشی ،سماجی اور سیاسی مستقبل محفوظ ہو سکا ؟ ان تمام سوالوں کا جواب ریاست کی موجودہ کیفیت سے ہی ظاہر ہے۔ ا ن قرضوں سے ریاست اور اس کے عوام کو کچھ حاصل نہ ہو سکا ۔ حکمران امیر سے امیر تر ہو گئے اور ریاست اور اس کے عوام بتدریج غریب سے غریب تر۔ کب تک حکمران ریاست کے وسائل سے مستفید اور عوام محروم ہوتے رہینگے۔ حکمران اشرافیہ( سیاسی اور غیر سیاسی ) کے اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ریاست کا خزانہ مسلسل خالی ۔گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن میں ارکان اسمبلی کے جمع کئے جانے والے اثاثوں کے گوشوارے اس بات کا بین ثبوت ہیں جن کے اثاثوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت ریاست جس مشکل صورت حال سے دوچار ہے اس سے نکلنے کے لئے مزید قرضوں کا حصول ناگزیر ہے ۔ماحولیاتی بگاڑ کے اثرات حالیہ سیلاب سے ظاہر ہو چکے ہیں ۔ زراعت او ر ریاست کا بنیادی ڈھانچہ تباہی سے دوچار ہو چکا ہے سیاسی عدم استحکام اور انتظامی بد عنوانی کے باعث عالمی مالیاتی ادارے اعتبار کرنے کے مخمصے کا شکار ہیں ۔سیاسی قیادت باہم الجھی ہوئی ہے۔ سیاست دانوں کی غیر ضروری الزام تراشیوں نے بین الاقوامی سطح پر ریاست کا تاثر دھندلا دیا ہے ۔ حکمران اشرافیہ کو ریاست کی بہتری کے لئے اب اپنے اطوار بدلنا ہوں گے اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔