وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کا کہنا ہے کہ ہم نے جو وعدہ کیا نبھایا۔عثمان بزدار جب سے وزیر اعلیٰ بنے ہیں، ناقدین کے نشانے پر ہیں۔ سیاسی مخالفین تو اپنی جگہ ان کی اپنی جماعت کے ارکان بھی ان کی رخصتی کی امید لگائے بیٹھے رہے۔ہمارے دانشوروں نے بھی خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ان کی کم گوئی کو ان کی کمزوری بنا کر ان کے لتے لئے جاتے رہے۔ ایک غیر ملکی میڈیا کی ویب سائٹس پر ایک محترمہ نے اپنے مضمون میں یہاں تک لکھ دیا ’’لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پردہ نشیں اب کون سا چلہ کاٹ کر بزدار صاحب کو بچائے گا‘‘ ایک اور غیر ملکی میڈیا پر پاکستان کی معروف ایک سابقہ اینکر تو طعنوں پر اتر آئیں اور لکھا ’’وفاق ہو یا صوبے، کے پی کے ہو یا پنجاب بزدار اطاعت کی ایسی مثال بن گئے ہیں جس کا ذکر آپ کو گورنر جنرل غلام محمد کی طرح صرف تاریخ کی کتابوںمیں ملے گا‘‘۔پاکستانی میڈیا میں ایک دو کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی دانشور یا لکھاری ہو گا جس کی زبان اور قلم سے عثمان بزدار کے لئے کلمہ خیر نکلا اور لکھا گیا ہو۔پاکستانی دانشوروں کی عثمان بزدار سے اکتاہٹ اور چڑ نے مجبور کیا کہ عثمان بزدار کی شخصیت ان کی سیاسی اہلیت اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ پنجاب کی شخصیت کا تعلق ہے تو بادی النظرمیں ان کی کم آمیزی اور صاف گوئی شاید ان کی برائی سمجھی گئی ہے۔ حالانکہ تمام تر تنقید اور برائیاں سننے کے باوجود اس شخص کے منہ سے کسی کے لئے کبھی غیر سنجیدہ الفاظ نکلے نہ ہی کسی سے گلہ کیا۔ سیاسی اہلیت کی بات کی جائے تو عثمان بزدار حمایتی جماعت سمیت محض پانچ یا سات ووٹوں سے وزیر اعلیٰ بنے تھے اور آج بھی اسمبلی میں ان کی برتری یہی پانچ یا سات ووٹ ہیں۔ کیا یہ ان کی سیاسی بصیرت کا ثبوت نہیں کہ اتحادی بیساکھیوں کے باوجود وہ کامیابی اور خاموشی سے اپنی کرسی بچائے ہوئے ہیں؟ ان سے بھلے ہی سیاسی ساتھی خوش نہ ہوں مگر اتنے بھی ناراض نہیں کہ بغاوت پر اتر آئیں۔ رہی کارکردگی، تو جب کورونا کے باعث پوری دنیا معاشی تنائو کا شکار تھی اس شرمیلے اور ہر وقت تنقید کی زد میں رہنے والے وزیراعلیٰ نے پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ دیا ہے۔وفاقی حکومت کو تو ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کرنا پڑی مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ نے 560ارب کے ترقیاتی فنڈز ہی نہیں رکھے بلکہ 85ارب کا اضافہ بھی کیا۔یہ پنجاب حکومت ہی ہے جو صوبے کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے اور 8 یونیورسٹیوں پر اس سال کام شروع ہو چکاہے۔ انہوںنے پنجاب میں 9مدر اینڈ چلڈرن ہسپتال بنائے۔ لاہور میں گنگا رام اور کوٹ لکھپت میں بڑے ہسپتالوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ صرف لاہور میںاربوں روپے کے تین میگا منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ایک کا افتتاح بھی کر دیا ۔ایک ماضی کے حکمران تھے کہ سرکاری نوکریوں کو سیاسی رشوت کے طور پر بانٹتے تھے کیا یہ سچ نہیں کہ کلرک اور چپڑاسی کی نوکریوں کے تقرر نامے 9کلب سے جاری ہوا کرتے تھے جس کو ’’گھگو‘‘ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اس نے محکمہ صحت میں 36ہزار افراد کو بھرتی کیا مگر کہیں سے سفارش رشوت کی آواز نہیں اٹھی۔صوبے کے ہر شہری کو صحت کارڈ تعلیم روزگار کی فراہمی کے باوجود بزدار کے حصے میں تنقید اور بے زاری ہی کیوں؟عثمان بزدار کے منصوبے کسی ایک علاقے تک نہیں بلکہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار تمام اضلاع کی ترقی کے لئے منصفانہ فنڈز رکھے گئے ہیں اور ہر ضلع میں کام ہوتا ہوا دکھائی دے رہاہے۔اس ’’ صرف عمران خان کے منظور نظر‘‘ ہونے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ بننے والے ٰ نے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے صوبے میں ایک لاکھ نوکریاں پیدا کی ہیں جو صرف اور صرف میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر بغیر کوئی دکھاوا کئے اہل افراد کو فراہم کی جائیں گی۔عوام عثمان بزدار کے تین سال کا مقابلہ شہباز شریف کے 20سالہ اقتدار سے کریں تو فرق صاف نظر آئے گا مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کام کے بجائے نام دیکھا جاتا ہے۔کچھ میڈیا والے اپنے مفاد کے لئے پسندیدہ افراد کی ’’ہوا‘‘ بنا دیتے ہے۔ یہ سیاسی ’’ہوا‘‘ ہی وہ تیزاب ہے جس کے بارے میں اقبال فرما گئے تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اک ڈھیر! برطانوی مصنفہ کیٹ لیسٹر نے زندگی میں کامیابی کے لئے سخت محنت اور اس امید پر ضرورت سے کام کرنا کہ کوئی خود اس کا نوٹس لے کر اجر دے گا کو’’ بکواس‘‘ کہا ہے۔جیف شینن نے بھی اپنی کتاب Hard work is not enoughمیں لکھا ہے کہ اگر کوئی آپ کی محنت کو تسلیم نہیں کر رہا تو ایسی محنت کا کوئی فائدہ نہیں۔محنت کو کامیابی میں بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں۔ان مغربی محققین کے فلسفے کا اطلاق زندگی کے باقی شعبوں سے بڑھ کر سیاست پر ہوتا ہے۔ اسی کا ہی کمال تھا کہ ہمارے ایک سیاستدان جنہوں نے پنجاب پر دو دہائیاں حکومت کی، ہر سال مون سون میں لانگ بوٹ پہن کر شمالی لاہورمیں فوٹو شوٹ کروانے پہنچ جاتے تھے۔ کارکردگی کا عالم یہ کہ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نشیبی علاقے برسات کے دنوں میں ندی نالوں کاروپ دھار لیتے ہیں۔صوبے کے اس خادم اعلیٰ کا یہ کارنامہ بھی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ موصوف نے صوبائی دارالحکومت میں پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت اور میوہسپتال کے ایمرجنسی ٹاور کو اپنے دس سالہ دور اقتدار میںصرف اس لئے مکمل نہ ہونے دیا کیونکہ ان یہ دونوں منصوبے ان کے مخالف پرویز الٰہی نے شروع کیے تھے۔صاحب اپنے منصوبوں کے افتتاح کے اس حد تک عادی تھے کہ اورنج ٹرین کا افتتاح نہ سہی رونمائی کی ہی تقریب رکھ لی۔ نئے منصوبوں کا اعلان ان کا گویا محبوب مشغلہ تھا۔عملی کام کی رفتار جو بھی تھی مگر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے شہباز سپیڈ سے مشہور ہوئے تو اس کی وجہ بھی حبیب جالب کے بقول یہی تھی: سر منبروہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں ہماری سیاست میں خوابوں کے محل تعمیر کرنا اور تقریر کرنا ہی کامیابی سمجھی جاتی ہے ۔ کام کو کون دیکھتا ہے! ہاں آپ کو ان چنیدہ لوگوں کو ضرور نوازنا ہوتا ہے جو آپ کی شان میں قصیدے لکھیں اور عوام میں آپ کی ’’ہوا‘‘ بنانے میں آلہ کار بنیں۔