اسلام آباد(اظہر جتوئی، 92نیوزرپورٹ، نیٹ نیوز ) وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا،وزیر خزانہ شوکت ترین پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کریں گے ، جس کا حجم 8000 ارب روپے کے لگ بھگ ہوگا، 3100 ارب روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے ، بجٹ خسارہ 2915 ارب روپے ہوسکتا ،ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے رکھنے کی تجویزہے ۔ گرانٹس کی مد میں 994 ارب اور سبسڈیز کی مد میں501 ارب مختص کرنے اور جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فیصد رکھنے کی تجویز ہے ۔ افراط زر کا ہدف 8 فیصد، صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 6.8 فیصد اور مینو فیکچرنگ شعبے کی ترقی کا ہدف 6.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے ۔ مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف16 فیصد اور نیشنل سیونگز کا ہدف 15.3 فیصد رکھنے کی تجویز ہے ۔گاڑیاں سستی، سگریٹ مہنگے ہونے کا امکان ہے ۔ٹیلیکام آلات کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ، زراعت، تجارت، صنعت اور آئی ٹی کیلئے بڑی ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔صنعتی شعبے کیلئے خام مال کی 600 ٹیرف لائنز کی درآمد پر ڈیوٹی میں کمی کا امکان ہے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10سے 25 فیصداضافے کی تجویز ہے ۔یہ اضافہ بنیادی تنخواہ کے بجائے خصوصی الاؤنس کی مد میں کیا جائے گا ، تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔۔گاڑیوں پر ڈیوٹیز کے خاتمہ ہوگا جس سے گاڑیوں کی قیمت میں میں 3 لاکھ تک کمی کا امکان ہے ،ایس آر اوز ختم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے ۔ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے برآمدات کا ہدف 26 ارب 80 کروڑ ڈالرز رکھنے کی تجویز ہے ۔ سگریٹ اور دوسری غیر ضروری اشیا پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرنے کی تجویز ہے ۔ کم وبیش600 آئٹمز پر استثنیات ختم کرنے کی تجویز ہے ۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری اور زراعت کے برآمدی مال پر ڈیوٹیاں کم ہونے کا امکان ہے ۔ملک میں اسمبل ہونے والی موٹر گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی جو 10 فیصد اور7 فیصد ہے میں سے ایک کو ختم کر دیا جائیگا جس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں یکم جولائی 2021 سے ایک سے 3 لاکھ روپے کمی ہوجائیگی جبکہ استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کی بندرگاہ آمد پر ایک فیصد ماہانہ یا 12 فیصد سالانہ فرسودگی الائونس ختم کرنے کی تجویز ہے ۔برآمدی اشیاء میں استعمال ہونے والے درآمدی خام مال پر ٹیکس کم کئے جانے کی تجویز شامل ہوگی۔ صنعتی شعبے کیلئے خام مال کی 600 ٹیرف لائنز کی درآمد پر ڈیوٹی میں کمی کا امکان ہے ، خام مال کی درآمد پر 3 فیصد اضافی کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے جبکہ کسٹمز ڈیوٹی کو 11 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد تک محدود کرنے کی تجویز ہے ۔ خام مال کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور صنعتی شعبے کیلئے معاون آلات کی درآمد پر ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ٹیکسٹائل، ادویات، انجینئرنگ، کیمیکلز، چمڑے ، فٹ ویئر، صابن، ٹائر، ڈائپرز، ربر، ایل ای ڈی اور کاغذ کی صنعتوں کو فائدہ ہوگا۔خام مال کی درآمد سے 45 سے 50 صنعتوں کو فائدہ ہوگا۔ بجٹ میں سمگلنگ کے تدارک کیلئے سخت قوانین تجویز کیے گئے ہیں، سمگل سامان فروخت کرنے والے تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے ، تاجروں کی دکانیں جبکہ سمگل سامان سپلائی کرنے والی گاڑیاں ضبط کرنے کی تجویز ہے ۔درآمدکنندہ کیلئے درآمدی سامان کی انوائس فراہمی لازمی قرار دینے کی تجویز دی گئی ، درآمد کنندہ کا لائسنس معطل کرنے سے پہلے موقف لینا لازمی قراردینے کی تجویز ہے ۔بجٹ میں زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے متعدد اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں۔ کسانوں کو کھاد پر سبسڈی کسان کارڈ کے ذریعے فراہم کرنے ، زرعی زمین کی پیداوار بڑھانے کیلئے جپسم کے استعمال پر سبسڈی دینے ، گندم ذخیرہ کرنے کیلئے پلاسٹک کے سائلوز متعارف کرانے ، پلاسٹک سائلوز کی درآمد پر عائد 36 فیصد ڈیوٹی ختم کرنے ، کسانوں کو ڈی اے پی کھاد کیلئے 2 ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی دینے اور زرعی ٹیوب ویلز کیلئے فلیٹ ٹیرف مقرر کرنے کی بھی تجویز دی گئی ۔کورونا لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ اور ای کامرس کا استعمال بڑھ گیا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ میں ٹیلیکام آلات کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ، ٹیلیکام سیکٹر پر عائد ٹیکسز میں کمی اور ٹیلیکام سیکٹر کیلئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے کی بھی تجویز دی گئی۔بجٹ میں کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹیز کی شرح کم کر کے 5 فیصد تک لانے کی تجویز دی گئی ہے ، ٹیلیکام سروسز پر عائد 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی تجویز دی گئی ہے ۔ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے ۔دستاویزات کے مطابق وفاقی وزارتوں کو 672 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ملے گا۔ وزارت خزانہ ترقیاتی کاموں پر94 ارب خرچ کرے گی۔ این ایچ اے 113 ارب 95 کروڑ ،وزارت منصوبہ بندی99 ارب25 کروڑ، کابینہ ڈویژن 56 ارب 2 کروڑ، ، پیپکو 53 ارب ،ریلوے ڈویژن 30 ارب،وزارت داخلہ کیلئے 22 ارب مختص کیے گئے ۔ آبی وسائل کیلئے 110 ارب اور ہائرایجوکیشن کمیشن کو37 ارب روپے بجٹ ملے گا۔دیگر ضروریات و ایمرجنسی کیلئے 60ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔