22 نومبر ، اتوار کا دن اور سخت سردی ۔ پشاور میں حزب اختلاف کے گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کا جلسہ ۔قائدین سٹیج پر تشریف فرماہیں۔سردار اختر مینگل خطاب کے لئے آئے ۔ آتے ہی انھوں نے اشارہ کیا کہ بلوچستان کوقابو کرنے کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) قائم کی گئی ۔جنھوں نے بلوچستان قابو کرنے کے لئے باپ قائم کی ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ، لیکن ان کے لئے گنجائش پیدا کرنے اور ان کو اقتدار میں لانے والے سہولت کار پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری ان کے ساتھ سٹیج پربیٹھے تھے ۔ باپ بنانے والوں کا نام تو اختر مینگل لیتے ہیں لیکن سہولت کار جو ان کے ساتھ سٹیج پر موجود ہوتے ہیں ان سے پوچھ نہیں سکتے کہ آپ نے بلوچستان کو قابو کروانے میں ان کی مدد کیوں کی ؟سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی بلوچستان کی محرومی کانوحہ پڑھا ۔ڈھائی برس تک وہ بلوچستان کے وزیر اعلی رہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وہ اپنی کارکردگی قوم کے سامنے رکھتے لیکن وہ بھی الزامات اور گلے شکوے تک محدود رہے ۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور اقتدار میں بلوچستان کا خزانہ ،سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے برآمد ہوا تھا ۔ جو نہ اختر مینگل کو یاد ہے اور نہ ڈاکٹر عبدالمالک بلو چ کو ۔محمود خان اچکزئی نے وہی روایتی انداز اپنا یا ۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ پی ڈی ایم میںشامل دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ،اسٹیبلشمنٹ کو یہ سہولت فراہم کر تی رہی ہے؟محمود خان اچکزئی نے بلوچستان کی محرمیوں کا تدکرہ بھی کیا۔ وہ پانچ سال تک مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وفاق اور صوبے میں حکمران رہے ۔ ان کے بھائی پانچ برس تک صوبے کے گورنر رہے ۔ ان کے گھر کا ہرفرد اس دوران رکن پارلیمنٹ رہا لیکن کارکردگی کیا ہے ؟ صرف بلوچستان کی محرومی اور پسماندگی ؟ اپنی تقاریر میں جو سوالات سردار اختر مینگل ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور محمود اچکزئی نے پوچھے یا جو الزامات لگائے ان تمام کے ذمہ دار سٹیج پر موجود سیاسی جماعتیں تھیں لیکن انھوں نے ان سے گلہ شکوہٰ کرنے اور مستقبل میں ان غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد لینے کی بجائے عوام کا لہو گرما نے کے لئے صرف اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھا ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مقتدر قوتوں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے لیکن کیا یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری نہیں کہ اگر وہ مداخلت کرتی ہے تو ان کا راستہ روکے؟پشاور میں سٹیج پر موجود سیاسی جماعتوں کا ماضی گواہ ہے کہ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کا جواز فراہم کیا ۔ اختر مینگل ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اچکزئی کو چاہئے کہ وہ سیاست میں مقتدر قوتوں کی مداخلت کی مذمت ضرور کریں لیکن ساتھ میں ان سیاسی جماعتوں کی بھی سرزنش کرے جنھوں نے ان کو سیاست میں مداخلت کا راستہ فراہم کیا ۔ عوامی نیشل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلی حیدر خان ہوتی نے خیبر پختون خوا کے ساتھ زیادتیوں کا تذکرہ کیا ۔لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب صوبے کا نام ’’ شمال ،مغربی ، سرحدی صوبہ ‘‘ سے پختون خوا رکھنے کے لئے آئین میں ترمیم کی جارہی تھی تو پختون خوا کے ساتھ ’’ خیبر ‘‘ کا لا حقہ نواز شریف کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قبول کرنا پڑا ۔خیبر پختون خوا کی عوام کے ساتھ اس سے بڑا ظلم عظیم اور کیا ہوسکتا ہے کہ جب عوامی نیشنل پارٹی کو صوبے میںحکومت کا موقع ملا تو صوبائی حکومت ’’ بابا تہ ایزی لوڈ وکہ ‘‘ (بابا کو ایزی لوڈ کردو ) سے بدنام رہی ۔یہ صرف الزامات نہیں تھے بلکہ سابق وزیر اعلی حیدر خان ہوتی کے معاون خصوصی معصوم شاہ کو بعد میں نیب نے گرفتار کیا۔ گرفتاری کے بعد انھوں نے پلی بارگینگ کی اور رہا ہوئے ؟بلاول زرداری بھٹو جمہوریت ، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود جمہوری طریقے سے منتخب سربراہ نہیں ۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ان کا قول ضرور ہے فعل ہرگز نہیں ۔گزشتہ بارہ برسوں سے ان کی جماعت سندھ میں حکمران ہیں ۔ بارہ سال میں ان کی جماعت کراچی شہر کے باسیوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم نہ کرسکی ۔مریم نواز چونکہ دادی کی وفات کی وجہ سے خطاب نہ کرسکی ۔ان کی نمائندگی امیر مقام نے کی ۔ جس پارٹی کے قائد کی نرینہ اولاد اس ملک کے شہری نہ ہوجس کا وہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہا ہوتو ان کے بارے میں کیا رائے دی جائے ۔ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں لکھاریوں اور سیاست دانوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ وہ ایک زیرک سیاست دان ہے ۔ میری رائے اس سے مختلف ہے ۔ انھوں نے کبھی سیاست کی ہی نہیں بلکہ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ایک ہی اصول اپنا یا کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی ہونے کی صورت میں حکومت کا حصہ بننا ہے ۔یہی وہ کرتے رہے ۔ ان کو سیاست کا موقع ایم ایم اے کے بعد ملا تھا لیکن وہ اس اتحاد کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ۔گزشتہ انتخابات کے بعد ان کا سیاسی امتحان تھا جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ۔ پہلے صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر رہی سہی کسر پوری کردی اور پھر اسلام آباد پر یلغار کے بعد پسپائی نے ان کی دانشمندی کا بھانڈا پھوڑدیا ۔اگر وہ زیرک سیاست دان ہوتے تو وہ پی ڈی ایم کی سربراہی ہرگز قبول نہیں کرتے اس لئے کہ یہ دو جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی لڑائی ہے مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ کچھ آنا نہیں ۔بالفرض اس تحریک کے نتیجے میں حکومت ختم بھی ہوجائے تو اقتدار ان کو نہیں ملنا وہ پھر بھی اتحادی ہی رہیں گے ۔ ٭٭٭٭٭