انگریز نے برصغیر پاک و ہند پر مکمل اقتدار حاصل کرنے کے بعد کئی سال اس خطے کے رسم و رواج، اقدار و روایات اور عوامی مزاج کو سمجھنے پر صرف کئے اور کافی محنت طلب کوشش سے قوانین مرتب کرنے کا کام شروع کیا۔ برطانوی پارلیمنٹ میں کئی سال ان مسوداتِ قانون پر بحث ہوتی رہی اور آخر کار تین اہم قوانین منظور کرنے کے بعد برصغیر کے عوام پر لاگو کر دیئے گئے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں آج تک یہی قوانین من و عن نافذ ہیں۔ لال قلعے پر یونین جیک لہرانے کے صرف تین سال بعد 1860ء میں ’’تعزیراتِ ہند‘‘ (Indian Penal Code) نافذ ہوا، جس میں پانچ سو سے زیادہ جرائم کی تفصیل اور ان کی سزائیں درج ہیں۔ یہ قانون آج بھی ’’تعزیراتِ پاکستان‘‘ کے نام سے ہمارے ہاں موجود ہے۔ اس قانون کا کمال یہ ہے کہ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود شاید ہی کوئی ایسا جرم ہو جو آج وقوع پذیر ہو، مگر اس کی نوعیت اور سزا اس قانون میں موجود نہ ہو۔ تعزیرات کی سزائوں پر عملدرآمد کرنے اور مجرموں کو پکڑ کر تفتیش کرنے کے لئے انگریز نے پولیس اور مجسٹریٹی کا ایک جامع نظام وضع کیا۔ لیکن اس مربوط اور شاندار نظام کو بنانے میں تیس سال لگ گئے اور 1890ء میں اسے ضابطہ فوجداری کی صورت میں لاگو کر دیا گیا۔ تیسرا بڑا قانون لوگوں کے عمومی تنازعات کے بارے میں ضابطہ دیوانی کی صورت 1908ء میں آیا۔ یہ تینوں قوانین اپنی اصل صورت میں آج بھی اس مملکت ِ خداداد پاکستان میں نافذ ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 410 میں مالِ مسروقہ کی تعریف اس قدر تفصیل سے دی گئی ہے کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کے احتساب کے قانون کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ (1) وہ مال جس کا قبضہ سرقے کے ذریعے یا استحصال بالجبر کے ذریعے یا سرقہ بالجبر کے ذریعے منتقل کر دیا گیا ہو اور وہ مال جو مجرمانہ تصرف ِ بیجا میں لایا گیا ہو یا جس کے بارے میں خیانتِ مجرمانہ کا ارتکاب کیا گیا ہو، اسے مالِ مسروقہ کہتے ہیں‘‘۔(2) خواہ انتقالِ مال یا تصرف ِ بیجا یا خیانتِ مجرمانہ پاکستان کے اندر یا باہر وقوع پذیر ہوئی ہو۔ اس دفعہ میں دو اہم الفاظ استعمال ہوئے ہیں ’’مجرمانہ تصرفِ بیجا‘‘(Criminal Misappropriation) اور ’’خیانتِ مجرمانہ‘‘ (Criminal Breach of Trust) ۔ یہ دونوں جرم عموماً ایک ایسے ’’اعلیٰ‘‘ ڈاکو، چور یا بددیانت شخص پر لاگو ہوتے ہیں جو کسی بھی اعلیٰ یا ادنیٰ سرکاری اور غیر سرکاری ذمہ داری کا حامل ہو اور پھر وہ مجرمانہ طور پر لوٹ مار کرے یا جو ذمہ داری اسے دی گئی تھی اس میں خیانت کر کے مال بنائے، خواہ وہ منقولہ جائداد یعنی کوئی گاڑی وغیرہ ہو یا غیر منقولہ جیسے کوئی گھر یا جائداد وغیرہ۔ ان جرائم کی تفصیل دفعہ 161 سے 165 میں دی گئی ہے جو سرکاری کرپشن سے متعلق ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد تعزیراتِ پاکستان کے عملی نفاذ کی ذمہ داری سول انتظامیہ اور پولیس پر تھی، مگر ان میں آہستہ آہستہ کرپشن اور بددیانتی سرایت کرنے لگی تھی، اس لئے انہوں نے ان تمام دفعات کو صرف عمومی چوری تک محدود کر دیا۔ قانون بنانے والوں کی دُور رس نگاہوں کی داد دیجئے کہ انہوں نے مال کی منتقلی کے بارے میں یہاں تک لکھ دیا تھا کہ وہ ملک کے باہر ہو یا ملک کے اندر۔ خیانتِ مجرمانہ اور مجرمانہ تصرفِ بیجا سے بنائے گئے ’’مالِ مسروقہ‘‘ کے بارے میں قانون کے بنیادی تصور کے بالکل برعکس یہ بھی طے کر دیا گیا تھا کہ اس مال کی ملکیت کا ثبوت وہ شخص دے گا جس کے قبضے سے یہ مال برآمد ہوا ہو گا۔ اس ضمن میں 1898ء میں جب ضابطہ فوجداری لاگو ہوا تو اس کے باب پنجم میں ایس ایچ او کو جو بغیر وارنٹ گرفتار کرنے کے اختیارات دفعہ 55 میں دیئے گئے ہیں اس کی شق (ب) میں یہ درج ہے کہ ’’تھانے کی حدود میں رہنے والا ایسا شخص جس کے بظاہر نظر آنے والے (Ostensible) ذرائع آمدن نہ ہوں اور وہ اپنے طرزِ زندگی کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے‘‘، ایسے شخص کو ایس ایچ او بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکتا ہے، جبکہ ایک عام پولیس آفیسر دفعہ 54 کی شق (4) کے تحت کسی بھی ایسے شخص کو گرفتار کر سکتا ہے جس کے پاس سے کوئی ایسی چیز برآمد ہوتی ہے جس کی ملکیت کا وہ ثبوت نہ دے پائے۔ یہ تمام دفعات اب پاکستان کے نظامِ عدل میں عضوِ معطل بن کر رہ چکی ہیں اور آئے دن کے اعلیٰ عدالتی فیصلوں نے انہیں اس قدر محدود کر دیا ہے کہ اب کسی بھی علاقے میں کوئی جرائم پیشہ شخص اگر کئی ایکڑ کا گھر بنائے، لاتعداد گاڑیاں رکھے، روزانہ اپنے گھر پر جشن کا اہتمام کرے، مگر علاقے کا ایس ایچ او اس سے سوال نہیں کر سکتا، بلکہ اُلٹا وہ اس کے گھر پر ہونے والی تقریبات کے دوران سکیورٹی فراہم کرتا نظر آئے گا اور اگر یہ صاحبِ جائداد شخص کسی اسمبلی کا رکن ہو، اعلیٰ بیوروکریٹ ہو، پولیس کا سابقہ اعلیٰ آفیسر ہو یا کسی اہم ادارے سے بہت بڑی پوزیشن سے ریٹائرڈ شخصیت ہو تو پھر پورے تھانے کا عملہ اس کے سامنے مسلسل باادب باملاحظہ ہوشیار بنا رہے گا۔ یہاں تک کہ ان ’’اہم‘‘ افراد کے علاوہ اگر ایسا شخص میڈیا سے بھی وابستہ ہو تو پھر بھی اس سے سوال نہیں کیا جاتا۔ تعزیراتِ پاکستان کی ان دفعات کی موجودگی میں بھی پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کیلئے بار بار لاتعداد قوانین بنائے گئے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سرکاری افسران اور سیاسی نمائندوں کی کرپشن کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلا قانون جو 1947ء میں آئین ساز اسمبلی سے منظور کروایا وہ "Prevention of Corruption act 1947" تھا۔ اس ایکٹ کے تحت جرائم کی تفصیل تعزیراتِ پاکستان کی کرپشن سے متعلق دفعات 161 تا 165 سے ہی لی گئی تھی۔ لیکن قائد اعظمؒ کی بصیرت کا عالم یہ تھا انہوں نے اس قانون میں ایک ایسی شق ڈلوائی جو بددیانت لوگوں کو پکڑنے میں سب سے کارگر ہے۔ یہ شق 5E ہے جس کا عنوان ہے "Possession of property disproportionate to known source of Income." ’’ذرائع آمدن سے زیادہ جائداد رکھنا‘‘۔ اس شق کے تحت ہر وہ شخص جو کسی سرکاری عہدے پر متمکن رہا ہے، اور اگر اس کے پاس کوئی ایسی جائداد یا چیز ہے جو اس کی معلوم آمدنی سے زیادہ قیمت کی ہے تو پھر اسے ہی ثابت کرنا ہو گا کہ اس نے یہ جائداد یا مال کہاں سے بنایا ہے۔ یہ شق مزید بتاتی ہے کہ ملزم ہی اس معاملے میں اپنی صفائی کا سب سے اہم گواہ "Competent Witness" ہو گا۔ یعنی وہی بتائے گا کہ یہ جائداد اور مال اس نے کیسے بنایا ہے۔1947ء سے 2022ء تک اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے شہباز شریف تک زوال کا عالم یہ ہے کہ آج ایک پولیس والا سڑک پر کسی موٹر سائیکل والے کو روک کر یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس کی ملکیت کے کاغذات کہاں ہیں، لیکن کسی ایس ایچ او میں جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنے علاقے میں رہنے والے ایکڑوں پر پھیلے کسی محل نما گھر، کروڑوں روپے مالیت والی گاڑی اور دعوتوں پر لاکھوں اُڑانے والے شخص سے سوال کر سکے کہ یہ مال تم نے کیسے بنایا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کسی رقاصہ کے کوٹھے پر اگر کوئی شخص اچانک بے تحاشہ نوٹ نچھاور کرنے لگتا تھا تو پولیس والے اس سے پوچھنے آ جاتے تھے کہ تمہارے پاس یہ پیسے کہاں سے آئے۔ اب اکثر شادیوں میں اس سے کہیں بڑھ کر ہو رہا ہوتا ہے، لیکن کوئی جرأت نہیں کرتا۔ جس ملک میں لندن کے ’’مشہورِ عام فلیٹوں‘‘ میں چالیس سال سے مقیم ’’اہم سیاسی‘‘ خاندان کے افراد کے بارے میں عدالتِ عالیہ تفتیشی سے یہ ’’معصومانہ‘‘ سوال کرے کہ تم بتائو اس جائداد کا مالک کون ہے، تو پھر ایسے ملک میں کبھی بھی اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔