گو کہ سیکورٹی فورسز تقریباً ہر روز عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر ان کی تعداد حکومت کے اپنے بیان کے مطابق ہی 200سے کم ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب بس یہی لگایا جاسکتا ہے کہ عسکریت کو مقامی طور پر نئے رنگروٹ مل رہے ہیں۔ ایک اور لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ وزیر داخلہ نے سیاسی لیڈروں ، بشمول حریت کانفرنس کو، خاموش تو کرادیا ہے، مگر وہ بندوق کو خاموش کرانے میں فی الحال ناکام رہے ہیں۔ ایک جہاندیدہ سیاستدا ن نے اس وفد کو بتایا کہ وہ کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں نفرت کی ایک تہہ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ کس طرح اپنے آپ کو ظاہر کرے گی، بتانامشکل ہے۔ کشمیری پنڈتوں پر بنائی گئی حقائق سے پرے فلم کشمیر فائلز کے بارے میں وادی کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کہنا تھا کہ اس سے ان کو فائدہ کے بجائے الٹا نقصا ن ہو رہا ہے۔ اس سے وہ اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ بھارت نواز سیاستدانوں نے وفد کو بتایا کہ وہ کشمیر میں غیر محفوظ تو تھے ہی، اب اس فلم کی وجہ سے بھارت میں بھی غیر محفوظ ہوکر نہ ادھر کے رہ گئے ہیں نہ ادھر کے۔ کیونکہ اس فلم میں 1990میںکشمیر پنڈتوں کی ہجرت اور ہلاکتوں کیلئے ان کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور ان کے خلاف ہندو فرقہ میں نفرت پھیلائی گئی ہے۔ اس فلم سے کشمیر ی پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں کو لانے کے حکومت کے اپنے منصوبہ پر پانی پھیرتا نظر آتا ہے۔ پچھلی من موہن سنگھ کی قیادت والی کانگریسی حکومت کی کوششوں سے تقریباً دس ہزار کشمیری پنڈت واپس وادی کشمیر میں بسنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس فلم نے مقامی کشمیری مسلمانوں کو ایک ویلین کے طور پر پیش کیا ہے۔ 1990کے جو زخم مندمل ہوچکے تھے، اس نے انکو دوبارہ کھول دیا ہے۔ ان کے مطابق نئی دہلی کے ارباب حل و عقد پاور میں رہنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ، چاہے اسکے نتائج کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔ 2016میں اس گروپ کو ترتیب دینے کے بعد انکا یہ کشمیر کا دسواں دورہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار وہ واضح طور پر ماحول میں تناوٗ اور گھٹن محسوس کر رہے تھے۔ سیاسی لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ حد بندی کمیشن کی حالیہ رپورٹ سے مذہبی فرقوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس کمیشن نے آبادی کو معیار بنایا ہے نہ جغرافیہ کو۔۔اس کا واحد مقصد یہی لگتا ہے کہ کسی طرح ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے۔ اسی لئے ہندو اکثریتی علاقوں کی سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے وادی کشمیر کی سیٹیں بڑھ رہی تھیں اور جغرافیہ کے معیار سے جموں کے مسلم اکثریتی پہاڑی علاقوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ لوک سبھا حلقہ میں آدھا علاقہ وادی کشمیر اور آدھا جموں کے پونچھ ۔راجوری علاقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر انتخابات اکتوبر اور اپریل کے درمیان ہونگے، جب اننت ناگ اور پونچھ کو ملانے والا مغل روڈبند ہوتی ہے، تو امیدوار کو اگر ایک خطے سے دوسرے خطے میں انتخابی مہم کیلئے جانا پڑے گا تو اننت ناگ سے بانہال، ڈوڈہ، ادھمپور اور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہی راجوری۔پونچھ پہنچ سکتا ہے۔ یہ کیسی حد بندی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اتر پردیش کے حالیہ انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔ اسی لئے وہ اب کشمیر میں انتخابات کرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ لگتا ہے کہ اسی سال کے آواخر میں گجرات اور ہماچل پردیش کے ساتھ ہی انتخابات کا انعقاد کیا جائیگا۔ لگتا ہے کہ ان کا پلان 2024کے عام انتخابات سے قبل کشمیر میں پہلی بار ایک ہندو وزیر اعلیٰ مقرر کرکے اسکو پورے بھارت میں بھنایا جائے۔ اس سے وہ دنیا کو بھی مسیج دینا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں میں گوجر اور پہاڑی کمیونٹی کو کشمیر ی بولنے والی آبادی سے متنفر کرنے اور انکو بی جے پی کو ووٹ دینے کیلئے لام بند کیا جا رہا ہے۔ اس کیلئے ان سے وعدے کئے جا رہے ہیں۔ گوجر آبادی کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کیلئے اسمبلی میں نشتیں مخصوص ہوگئی ہیں۔ پہاڑی آبادی جو گوجر آبادی کے ساتھ ہی رہتی ہے، کا مطالبہ ہے کہ ان کو بھی یہ درجہ دیا جائے۔ وفد نے میڈیا کے بارے میں لکھا ہے کہ صحافی ان سے ملنے سے کتراتے رہے۔ وہ خوف زدہ تھے،کہ کہیں ان کو بعد میں تختہ مشق نہ بنایا جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آرمی کے ایک جنرل نے ایک سینئرصحافی کو بتایا کہ ’’ اس سے قبل کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں یا آپ سے بات کروں، پہلے یہ بتائیے کہ آپ اپنے آپ کو بھارتی تصور کر تے ہیں کہ نہیں؟‘‘ ایک دوسر ے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک سینئر افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل پانچ ایم M کا معاملہ ہے۔ ان میں Masses، مسجد، مولوی، ملی ٹنٹ اور میڈیا ہیں۔ ’’ہم نے مسجد، مولوی اور Massesکو تو کنٹرول کیا ہے۔ اب ملی ٹنٹ اور میڈیا کی باری ہے۔‘‘ ان کو کنٹرول کرنے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیگا۔ میڈیا سے متعلق عوام کو اگر کوئی موہوم سی بھی امید ہے، اس کو ختم کرنا ہے۔ اس وفد کے مطابق کشمیر میڈیا کو زیر کرنے کی ایک لیبارٹری بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں، جب دیگر علاقو ں میںبھی اسکا اطلاق کیا جائیگا۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت ہمیشہ سے ہی کشمیر میں وفاداریوں کو جیتنے کے بجائے ا نکو مراعات ا ور د ھونس دبائو کے ذریعے خریدنے پر مصر رہی ہے اور موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ پہلے بھارت کی حکومتیں کشمیر کو Integrateیعنی باقی ملک کے ساتھ انضمام کیلئے کوشاں ہوتی تھیں، مگر موجودہ حکومت اس کو ہضم کرنے اور اسکے وجود اور شناخت کو ہی مٹانے کے درپے ہے۔ اسلئے اگر شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی نئی حکومت اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے کشمیر میں عوام کیلئے سانس لینے کی کوئی سبیل مہیا کروائے، تو اس کا یہ قدم تاریخ میں رقم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے لیڈران بشمول نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری بھی مغربی دنیا میں اپنی پارٹی کی گڈول کا فائدہ اٹھا کر اگر کسی طرح مودی حکومت کو کشمیری عوام کے وجود اور شناخت کو بچانے پر قائل کرواسکیں ، تو وہ اپنے ناناذوالفقار علی بھٹو کے صحیح جانشین کہلوانے کے حقدار ہونگے۔ ورنہ تاریخ خاصی ظالم ہوتی ہے، ان دونوں پارٹیوں کو اسکا حساب دینا پڑیگا۔(ختم شد)