جس طرح صبح قریب ہونے پررات کا پل بہت زیادہ سیاہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح جب گرمیوں میں پہاڑوں سے پانی چل پڑتا ہے تب میدانی علاقے پیاس کا عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ اس وقت سندھ میں پانی کی قلت اس قدرشدت اختیارکر چکی ہے کہ پورے صوبے سے پکار آر رہی ہے کہ ’’پانی دو‘‘ مگر حکومت کرنے والے وڈیرے سب سے پہلے اپنی زمینوں کو آباد کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے فش فارمز بھرتے ہیں۔ پھر کہیں انہیں غریب آباکاروں کا خیال آتا ہے۔ وہ آبادکار غریب سمجھے جاتے ہیں جن کی سیاسی پشت پناہی نہیں ہوتی۔ وہ وڈیرے کمزور ہوتے ہیں جن کے پاس زمینوں کی توکوئی حد نہیں ہوتی مگر ان پاس سیاسی اثررسوخ نہیں ہوتا۔اس لیے وہ رشوت دے کر بھی اپنے فصلوں کے لیے پانی نہیں خرید سکتے۔ جہاں سے پانی اترتا ہے، جہاں پر پانی سمندر میں گرتا ہے اور پہاڑوں سے لیکرسمندروں تک پانی پر مسلسل ڈاکے پڑتے رہتے ہیں۔ سندھ میں پانی ہمیشہ سے حساس مسئلہ رہا ہے۔ اگر سندھ کی سماجی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قبائل کے درمیاں اکثر خونی فسادات اور نسل در نسل چلنے والی دشمنیوں کی بنیاد پانی ہے۔ کیوں کہ پانی زندگی ہے۔ اگر پانی نہیں آئے گا تو فصل نہیں اگ پائے گی۔ اگر فصل نہیں اگے گی تو کوئی کیا کھائے گا؟ ہم تو انسانوں کی بات کر رہے ہیں مگر اس دھرتی کے پرندے بھی انتظار کرتے ہیں کہ کسان بیج بوئے اور فصل پیدا ہو کہ وہ بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر پائیں۔ پانی کی اہمیت سے ہم سب آگاہ ہیں۔ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاست نے فطرت کے سسٹم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اس لیے ہمیں گلوبل وارمنگ کا سامنا ہے۔اس وقت سب سے خطرناک واقعات پاکستان کے بلند پہاڑی علا قوںمیں ہو رہے ہیں جہاں صدیوں قبل جمی ہوئی برف کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اگر یہ ہوتا رہا تو ہمارے لیے زمین زندگی کی امین بن کر نہیں رہے گی۔یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ مگر ہم لوگ بہت سادہ ہیں۔ جب پانی آتا ہے تب ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ پانی کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے؟ ہم صرف اپنا نزدیکی مفاد دیکھتے ہیں اور بس! اس وقت پانی صرف سندھ کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ بنا ہواہے۔ پاکستان میں میدانی علاقے خاص طور پر بلوچستان پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ جب کہ پاکستان کی جغرافیائی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اس پر علامہ اقبال کایہ مصرع پوری طرح صادق آتاہے : ’’ذرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ یہ صرف ایک شاعرانہ بات نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جب سندھ میں برسات ہوتی ہے۔ جب سندھ کے صحرا پر بادل برستے ہیں۔تب تھر کا علاقہ پورے سندھ سے حسین نظر آتا ہے۔اسی طرح اگر پاکستان میں پانی کی تقسیم سائنسی بنیادوں پر کی جائے توپورا ملک سرسبز ہو سکتا ہے۔ پاکستان جس کی زرعی معیشت کو خطرات کا سامنا ہے۔ وہ اس بحران سے نکل سکتی ہے۔ مگر اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ پانی کی چوری اور پانی پر ڈاکے ختم ہوں، چوری پنجاب میں ہو یا سندھ میں ہواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چوری توچوری ہوتی ہے۔ پاکستان کا قانون پورے ملک کے لیے ہے۔یہ کسی ایک صوبے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے پانی کی چوری جو بھی کرتاہے ،وہ چور ہے اور جو ڈاکہ ڈالتا ہے وہ ڈاکو ہے۔ مگر سندھ میںایک آمرانہ قسم کی جمہوریت ہے۔ حکمرانوں اور ان کے حامیوںپر تو کوئی انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا۔ حالانکہ یہاں کیا کیا نہیں ہوتا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے یہاں ہم چور کو چور نہیں کہہ سکتے۔جہاں ہم مجرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہیں۔ جہاں قانون نہ ہو۔ وہاں انصاف کو تلاش کرنا عبث ہے۔کیوں کہ انصاف اور قانون کے درمیاں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ انصاف وہاں ہو سکتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ جہاں قانون کے بجائے لاقانونیت کا راج ہووہاں پر آپ کو انصاف کس طرح مل سکتا ہے؟ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ سندھ میں ہم پنجاب کے خلاف جلوس نکال سکتے ہیں۔ ہم وفاق کے خلاف نعرے لگا سکتے ہیں۔ ہم وفاقی حکومت کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں۔ مگر ہم صوبائی حکومت کے خلاف ہونٹ تک نہیں ہلا سکتے۔ ہمارے پاس پرانے واقعات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں کیا ہوا؟ کیا ہم نہیں جانتے؟ کیاہم بھول چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے جس ایم پی اے اور جس ایم این اے کے خلاف نظام جوکھیو نامی نوجوان کے قتل کا مقدمہ داخل ہواتھا اور جس کی حمایت میں پورا سندھ امڈ آیا تھا اور جس کے لیے عدالتوں نے ہر صورت میں انصاف کا تہیہ کیا تھا۔اس مقدمے میں مقتول کی بیوہ کو سمجھوتے پرمجبور کیا گیا اور اس نے نہ صرف سب کے سامنے مقدمے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا بلکہ اس نے احتجاج کرنے والے افراد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مقتول خاوند کے حوالے سے کوئی احتجاج نہ کیا جائے۔ جہاں انسانوں کے لاش انصاف کے بغیر دفن ہوجاتے ہیں۔ وہاں پانی کے لیے کوئی کیا کرسکتا ہے؟ پانی کے خاطر لوگ پکار سکتے ہیں۔ وہ پکار رہے ہیں۔ مگر ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس پکار کو کس حد تک رکھنا ہے اور کس کے خلاف رکھنا ہے۔ پانی کا کیس بہت پرانا کیس ہے۔ مگر ہماری جاگیردار جمہوریت نے اس کیس کو صرف سیاست کا رنگ دے دیا ہے۔اس طرح جو پانی چراتے ہیں۔ جو پانی پر قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کا تو کوئی نام تک نہیں لے سکتا۔کیوں کہ ان کے پاس سیاسی طاقت ہے۔سندھ میں حکومت کے پاس تو سیاسی طاقت ہے اس لیے ان وہ اپنے حامیوں کو بھرپور پانی فراہم کر رہی ہے مگر سندھ میں جو لوگ قوم کی سیاست کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جولوگ سندھی قومپرست ہیں۔ وہ بھی اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے سیاسی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ کیایہ تماشہ نہیں کہ سندھ میں ایسے بھی سیاسی وڈیرے ہیں جو اپنے حق سے زیادہ پانی استعمال کرنے کے بعد پانی کے لیے نکلنے والے احتجاجی جلوس کی قیادت کرتے ہیں۔ جب چور بھی شور مچائے تو انسان انصاف کے لیے کس کے پاس جائے؟اس صورت میں انسان کے بس میں صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اوراس در سے انصاف مانگے جہاں کوئی رشوت اور کوئی سفارش نہیں چلتی۔ جہاں صرف مظلوموں سے انصاف ہوتا ہے۔ جہاں پیاسوں کی پکار سب سے پہلے سنی جاتی ہے۔ پھر وہ پیاسی زندگی انسان کی ہو یا پرندے کی؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا!!