پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اپنی پاکستا ن آمد کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں کا اغاز کر دیا ہے ۔سب سے پہلے وہ کراچی گئے جہاں پہ انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ پاکستان سے الیکشن الحاق کا فیصلہ کیا۔ اب سندھ میں پاکستان مسلم لیگ نواز ،مہاجرقومی موومنٹ کے ساتھ مل کر شہری علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کا مقابلہ کرے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نواز دیہی علاقوں میں جی ڈی اے کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلزپارٹی کو ٹاف ٹائم دینے کا سوچ رہی ہے۔ اپنی الیکشن مہم کے دوسرے مرحلے میں نواز شریف کوئٹہ پہنچے ۔بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس کی قومی اسمبلی میں سب سے کم نشستیں ہیں لیکن پاکستان میں جب کوئی بڑی سیاسی تبدیلی آتی ہے تو اس کاآغاز بلوچستان سے ہوتا ہے اور پھر وہ وہاں سے جنوبی پنجاب پہنچتی ہے اب نواز شریف کے کوئٹہ پہنچنے پر بہت سے لوگوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کو جوائن کر لیا ہے جس میں پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما شامل ہیں ۔اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق وزیراعلی جناب جام کمال پاکستان مسلم لیگ نواز کا حصہ بن گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں میں جو مسلم لیگ میں شامل ہوئے ہیں سب سے نمایاں نام سابق وفاقی وزیر صالح بھوتانی کا ہے۔بہت نامور شخصیات پاکستان مسلم لیگ نواز میں شامل ہو چکی ہیں جبکہ دوسری طرف بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں سے انتخابی اتحاد کے بارے میں ابھی کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ۔یہاں پہ پاکستان مسلم لیگ نواز ،جمعیت علمائ￿ اسلام فضل الرحمن گروپ پختوان خواہ ملی پارٹی، نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنا چاہتی ہے اب جیسے جیسے وقت گزرے گا تو پتہ چل جائے گا کہ کون کون سی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہے۔ اب محسوس ہو رہا ہے کہ اپنی سیاسی مہم کے سلسلے میں نواز شریف اب آنے والے دنوں میں پشاور پہنچیں گے اور جہاں پہ کافی لوگ پاکستان مسلم لیگ نواز کو جوائن کر سکتے ہیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے بھی کچھ لوگ پاکستان مسلم لیگ نواز کو جوائن کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جناب نواز شریف ممکنہ انتخابی اتحاد کے سلسلے میں نیشنل عوامی پارٹی ،جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سے بات چیت کریں گے۔ اس کے بعد وہ اپنی پوری توجہ پنجاب پہ صرف کر سکتی ہیں جو کہ پاکستان سیاست کا گڑھ ہے اور جہاں کی 100سے زیادہ نشستیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ پاکستان کا اگلا وزیراعظم کس پارٹی سے ہوگا۔ اس وقت عوام کی نظروں میں نواز شریف کا تاثر اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے کا ہے اور یہ نواز شریف کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ اس تاثر کو کس طرح سے زائل کرتے ہیں ۔اگر تجربے کو دیکھا جائے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی پچھلی تاریخ کو تو اس سے تو لگ رہا ہے کہ اگلی حکومت پاکستان مسلم لیگ نواز کی ہوگی لیکن دوسری طرف پاکستان اس وقت ایک بدلے ہوئے ماحول سے گزر رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر اس وقت بھی اپنی پارٹی سے جڑا ہوا ہے اس وقت پارٹی انتشار کا شکار ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر کسی انتشار کا شکار نہیں ہے اور ایک بہت بڑی اکثریت اب بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہے اگر یہ ٹرینڈ آنے والے الیکشن تک جاری رہتا ہے تو 2024کی اسمبلی میں بہت سی نئے چہرے شامل ہوں گے یہ نئے چہرے قومی اسمبلی میں بھی ہو سکتے ہیں اور پنجاب اور صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلیوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ایک طرف پاکستان مسلم لیگ نوازاپنی الیکشن میں پورے زور شور سے چلا رہی ہے دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول پھٹو الزام لگا رہی ہے کہ ہم بند قبروں کے فیصلوں کو نہیں مانیں گئے اور ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف پنجاب پہ فوکس کریں اور اکا دکا نشستوں کی فکر چھوڑ دیں ۔اکا دکا نشتوں سے مراد ان کی صبح سندھ اور بلوچستان بھی انتخابی اتحاد کی کوششیں ہیں۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے خلاف زیادہ ہے اور وہ پاکستان تحریک انصاف پر کم تنقید کر رہے ہیں اس وقت لاڈلے کی جو اصطلاح پہلے عمران خان کے لیے استعمال کی جاتی تھی اب نوازشریف کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔اس وقت پاکستان جن معاشی حالات سے دوچار ہے اس میں صرف ریکوڈک کا پراجیکٹ ایک امید کی کرن ہے اور جس طرح کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب اس میں 60ارب ڈالر کی اگلے پانچ سال میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ اب پاکستان کی وفاقی حکومت کو اپنے 25 پرسنٹ شیئرز سعودی عرب کو دینا ہوں گے۔ ریکوڈک میں 50فیصد شیئرز کینیڈا کی فرم بارک گولڈ کے ہیں اور جبکہ 25پرسنٹ بھی وفاق کی تین کمپنیاں ہیں اور 25فیصد شیئرز بلوچستان گورنمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر سعودی عرب اگلے پانچ سال میں 60ارب ڈالر انویسٹ کرتا ہے تو پاکستان کی اکانومی میں ایک بڑا انقلاب ہوگا اور پاکستان اس وقت زر مبادلہ کے چکروں میں پھنسا ہوا ہے ان سے نکل سکتا ہے اب دیکھنا ہے کہ اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ریکوڈک میں تانبے اور سونے کی معدنیات پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ یہاں پہ ایک تاثر یہ تھا کہ یہاں پہ کچھ اور معدنیا ت بھی ہیں جو کہ کرہ زمین پر بہت کم پائی جاتی ہیں لیکن بعد کی ریسرچ کے بعد پتہ چلا کہ یہاں پہ صرف سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں اگر کوئی اور ذخائر ان دھاتوں کی نکلتے ہیں جو کہ بہت اہمیت کی حامل ہے تو وہ حکومت پاکستان کی ملکیت ہوگی ریکوڈک میں تانبے کے دنیا میں سب سے بڑے ذخائر کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اگر ہم کسی طریقے سے اس پراجیکٹ کو جاری رکھ سکیں تو آنے والے وقت بھی پاکستان کی بہت سی مشکلات کم ہو سکے گی ۔ویسے تو یہ کام 2006میں شروع ہوا تھا لیکن اس کے بعد 2011میں اس کو بند کر دیا گیا تھا۔آغاز بھی یہاں پہ کینیڈا کی فرم بارک گولڈ اور چلی کی ایک فرم تھی لیکن بعد میں چلی کی فرم نے گورنمنٹ آف پاکستان سے 900ملین۔ڈالر لے لیے اور انہوں نے اس پراجیکٹ کو چھوڑ دیا ہے۔اب کینیڈاکی فرم بارک گولڈحکومت پاکستان اور بلوچستان کی صوبائی حکومت حصہ دار ہیں۔