پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق پنجاب اسمبلی اور خیبر پختوں خواہ اسمبلی کے الیکشن آئین کے مطابق 90 دن میں ہونگے اور اس سلسلہ میں سپریم کورٹ نے صدر پاکستان اور گورنر کے پی کے کو ہدایت کی ہے کہ الیکشن کی تاریخ دی جائے۔ یہ دونوں اسمبلیاں جنوری میں تحلیل ہوئی تھی۔ حکومت کے نامزد کردہ گونر نے نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔بلکہ پنجاب کے گورنر نے تو اسمبلی کی تحلیل پر دستخط بھی نہیں کئے۔ اب پنجاب میں صدر نے تیس اپریل الیکشن کی تاریخ دی ہے ۔جبکہ خیبر پی کے میں ابھی تک کوئی تاریخ نہیں دی گئی ،اس وقت ملک جن معاشی اور سیاسی حالات سے دوچار ہے اس کا واحد حل نئے الیکشن ہیں، ہمیں اپنے عوام کو موقع دینا چاہئے کہ وہ اس قیادت کا انتخاب کر سکیں جو انکے خیال میں پاکستان کو ان حالات سے نکال سکتی ہے۔اسوقت آئی ایم ایف کی قسط بھی پاکستان کے معاشی حالات کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ پاکستان نے اس سال جون تک چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ قرضے واپس کرنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی قسط سے وقتی ریلیف مل سکتا ہے۔ فرسٹ ایڈ ہے علاج نہیں ہے۔ زخم کے مکمل علاض کے لئے ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے جس کے لئے ہماری اشرافیہ نہ تیار ہے اور نہ ہی وہ اس حل کی طرف آنا چاہتی۔ انکے مفادت اور عام عوام کے مفادت میں بہت فرق ہے ، غریب عوام اس وقت مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔ اس وقت افراط زر کی شرح چالیس فی صد کے قریب ہے اور خوراک کے آئٹم کی شکل میں یہ افراط زر 45 فی صد سے زائد ہو چکا ہے۔ 4000 من گندم اور 4000 سے اوپر گیس سلنڈر کی قیمت غریب کی پہنچ سے دور ہے۔ اس وقت بجلی کے جو ریٹ ہیں انکی بنا پر مستقبل قریب میں ہماری برآمدات بڑھنے کے بہت کم امکانات ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنی کمزوری اور طاقت کو نہیں پہنچان سکے۔ پاکستان میں ایک کروڑ کے زائد تعلیم یافتہ گریجویٹ نوجوان موجو د ہیں، ہر سال پاکستان ساڑھے چار لاکھ سے زائد گریجویٹ پیدا کر رہا ہے اور ان میں سے بھی 30 فی صد لوگ روزگار تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس وقت ہماری حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان سب نوجوان کو جاب دے سکیں۔ اور ناں ہی ہمارا پرائیویٹ سیکٹر اتنی تعداد میں جاب فراہم کر سکتا ہے۔اتنے سارے نوجوان کو ہم جلد باہر بھی نہیں بھیج سکتے۔ اس وقت صرف ایک حل موجود ہے اور وہ ہے کہ ان نوجوان کو آن لائن جاب کی تربیت دی جائے حکومت ہنگامی بنیادوں پر چار چار ماہ میں نوجوانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ کم از کم 500 ڈالر ماہانہ کی جاب کر سکیں اور یہ کام کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔قرضے دینے کے بجائے ہر ایک نوجوان پر پچاس ہزار روپے خرچ ہوں جو اسکو سکالر شپ کی مد میں دئے جائیں۔چار ماہ بعد یہ نوجوان اس قابل ہونگے کہ 150000 روپے کے قریب ماہانہ کما سکیں۔ اس سلسلہ میں صرف یو ٹیوب، فیس بک،ٹک ٹاک اور بلاگ والہ پلیٹ فارم استعمال ہو سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کی صورت میں ایک جن موجود ہے جس کی مناسب ٹریننگ سے ہمارے نوجوان لاکھوں روپے ماہانہ کما سکتے ہیں۔ اگر ہم ان ایک کروڑ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار فراہم کر دیں تو ہم ہر سال پچاس ارب ڈالر سالانہ کا زر مبادلہ کما سکتے ہیں اس وقت ہماری ٹوٹل برآمدات 30 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ اس وقت ہماری آئی ٹی کی کل برآمدات دو ارب ڈالر کے قریب ہیں اور بھارت کی آئی ٹی برآمدات 140 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ انڈیا اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہیں،چین اس وقت 18 ٹریلین ڈالر کی اکا نومی کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور امریکہ اس وقت 23 ٹریلین ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ انڈیا جو دس پندرہ سال پہلے دسویں نمبر پر تھا اب چھٹے نمبر پر ہے اور کسی بھی وقت یہ انگلینڈ کو مات دیکر پانچویں نمبر پر آسکتا ہے۔ انڈیا کے بقول 2047 میں کل دنیا کی 20 فی صد ورک فورس انڈیا میں ہوگی۔جبکہ دیوالیہ پن ہماری دہلیز عبور کر چکا ہے۔ ہماری اشرافیہ اس وقت تک صرف ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہے اور ملک کی انکو کوئی پروا نہیں ہے۔ اب آتے ہیں الیکشن کی طرف۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ دو صوبوں میں الیکش ہو رہے ہیں اور دو صوبوں اور وفاق میں نہیں۔ اس وقت دو صوبوں اور وفاق میں مستقل حکومت ہے اور دو صوبوں میں عبوری حکومت ہے۔ اب اگر قومی اسمبلی کے الیکشن اکتوبر نومبر میں ہوتے ہیں تو اس وقت وفاق میں اور سندھ اور بلوچستان میں عبوری حکومت ہو گی اور پنجاب اور کے پی کے میں مستقل حکومت ہو گی،الیکشن سے متعلق آئین کی روح کو جو نقصان اس بات سے ہو رہا ہے، ہمیں اس بات کا ادراک نہیں۔ الیکشن سے متعلق جو آئین ہے وہ کہتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نگران حکومت ہو۔ یہاں اب جو صورت حال ہے وہ تو یہ ہے ایک پاکستان سپر لیگ سٹیڈیم میں ہو رہی ہے جو چند روز بعد ختم ہو جائے گی اور ایک پھڈا لیگ جو ملک کی سڑکوں پر جاری ہے اسکے خاتمے کے کچھ آثار نہیں ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ گاڑی اس وقت تک کیچڑ میں سے نہیں نکلتی جب تک بیل خود زور نہیں لگاتا۔ دھکے لگانے والے جلد تھک جاتے ہیں۔ اس وقت ملک کی معاشی گاڑی جس دلدل میں پھنس چکی ہے اس سے نہ تو آئی ایم ایف نکال سکتا ہے ناں چین اور ناں امریکہ۔ سعودی عرب اور یو اے ای بھی ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے عوام اور اشرافیہ کو ملکر اس صورتحال کا حل تلاش کر نا ہو گا۔اگر عوام ناں رہے تو حکومت کس پے ہوگی ابھی موقع ہے اشرافیہ کے پاس۔ورنہ قحط میں بھیڑئے ایک دوسرے کو کھا جاتے ہیں۔