سابق اَمریکی سفارتکاروں پر مشتمل پاکستان سٹڈی گروپ نامی ایک مطالعاتی گروپ نے گزشتہ ہفتے پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان کے چین پر بڑھتے ہوئے انحصار کو کم کرنے کے لیے سرمایہ کاری اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعاون کی کوششوں کے ساتھ اَمریکہ کو پاکستان کے ساتھ اَنگیجمنٹ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اَمریکہ میں جو بائیڈن کی حکومت کے قیام سے دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔ اَگرچہ صدر ٹرمپ کے دور میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان عمدہ اور مثالی تعلقات نہیں تھے مگر معمول کے باہمی روابط قائم تھے۔ پاکستان اور اَمریکہ کے باہمی تعلقات میں سرد مہری کے پیچھے ایک اَہم عنصر اَفغانستان کی صورتحال رہی ہے۔ پاکستان سٹڈی گروپ کی حالیہ رپورٹ میں دونوں ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ "موجودہ اختلافات کو شراکت کی وضاحت کرنے کی اجازت دینے کے بجائے، اِس وقت دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ باہمی تشویش کے شعبوں پر کام کرنے کا راستہ تلاش کر سکیں۔" پاکستان اور اَمریکہ کے باہمی تعلقات کا یہ المیہ ہے کہ اَمریکہ ماضی میں پاکستان کے تعلقات کو اَفغانستان یا پاکستان کے تاریخی حریف بھارت سے جوڑتا رہا ہے جبکہ اَب چین کی عینک سے تعلقات کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہے جو کہ پاکستان کے ساتھ سراسر نااِنصافی ہے جس کا اِظہار پاکستان سٹڈی گروپ نے بھی اپنی رپورٹ میں کیا ہے ۔ گروپ نے امریکہ کو تجویز دی ہے کہ اب امریکہ کو چین کی عینک سے تعلقات کو دیکھنے کی بجائے، چینی قرضوں پر "شفافیت اور تعمیل کے لیے پاکستان کی استعداد بڑھانے میں مدد کی جا سکتی ہے اور امریکی کمپنیوں اور دیگر کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر کے پاکستان کا چین پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے"۔ پاکستان اور اَمریکہ کے درمیان قریبی تعلقات ہمیشہ باہمی فائدہ مند رہے ہیں اور جنوبی ایشیا میں استحکام کے لیے ایک اَہم عنصر کی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ سرد جنگ میں اور باضابطہ طور پر افغانستان جنگ میں شراکت دار تھے۔ لیکن اَمریکی حکام نے اسلام آباد کے ساتھ تعلق میںاَپنی برداشت اور صبر کو اس وقت کھو دیا جس وقت ان کے اِس خدشہ میں اِضافہ ہوا کہ پاکستان خاموشی سے طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، جنہوں نے اگست 2021 امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کامیابی حاصل کی۔ پاکستان ہمیشہ اَمریکہ کے ساتھ ایک متوازن تعلقات کا خواہش مند رہا ہے جو تجارت ، سرمایہ کاری ، توانائی اور علاقائی رابطے پر مشتمل ہوں۔ افغانستان میں ایک جامع سیاسی تصفیے کے لیے کوششوں کو آسان بنانے کے لیے پاکستان نے اپنے اِس عزم کا ہمیشہ اعادہ کیا ہے کہ افغانستان میں صرف ایک مستحکم اور وسیع البنیاد حکومت ہی اِس کے تنوع کی عکاسی کرتی ہے اور 2001 سے ملک میں حاصل شدہ فوائد کا تحفظ کر سکتی ہے۔ پاکستان اِس بات کو بھی یقینی بنانے کا عزم رکھتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں دوبارہ کبھی استعمال نہ ہو۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اَمریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے مثبت اِشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں جیسا کہ ستمبر میں اَمریکی محکمہ خارجہ نے 450 ملین ڈالر تک کے معاہدے کے تحت پاکستان کو F-16 طیاروں کے پرزوں کی اور متعلقہ آلات کی ممکنہ فروخت کی منظوری دی ہے۔ دوسری طرف صدر بائیڈن نے بھی اَقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اِجلاس سے اپنے خطاب میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں پاکستان کی مدد کی ضرورت پر زور دیا۔ اِسی طرح پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اَمریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی 30 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کرچکی ہے اور مزید مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہے جبکہ اَمریکہ سیلاب زدگان کے لیے 160 ملین ڈالر جمع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کام کررہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ دورہ امریکہ اور پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے امریکہ کے حالیہ پانچ روزہ دورے کو بھی بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کے طور پر تعبیر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے قریبی باہمی تعلقات کو بھارت کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا اور موجودہ صورتحال میں، بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں گرم جوشی آئے۔ پاکستان کو F-16 طیاروں کے متعلقہ آلات کی ممکنہ فروخت کی منظوری کے ضمن میں بھارت کے خواہ مخواہ کے واویلے اور پروپیگنڈے کی مثال سامنے ہے۔ موجودہ حالات میں امریکہ کی خواہش ہے کہ افغانستان میں القائدہ اور داعش جیسے شدت پسند گروہوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان اَپنا کردار اَدا کرے اِسی طرح پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ امریکہ کم از کم افغانستان کے منجمد اثاثے اور ماضی میں افغانستان کو فراہم کی جانیوالی امداد بحال کر دے تاکہ افغان عوام کو درپیش معاشی مشکلات میں کمی آسکے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ متوازن باہمی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ جیسی مضبوط معاشی، سیاسی اور فوجی طاقت سے نا ہموار تعلقات بھی اس کے مفاد میں نہیں ہے اَلبتہ خطے کی موجودہ صورتحال اور عالمی سیاست کے ٹرینڈز کے تناظر میں پاکستان کو اِنتہائی محتاط رویہ اَپناتے ہوئے اَمریکہ اور چین کے ساتھ اَپنے باہمی تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے اور اِس ضمن میں معمولی سی miscalculation پاکستان کے وسیع مفادات کو شدید نقصان پہنچاسکتی ہے۔