شبیر سومرو سے پہلا تعارف روزنامہ نئی بات میں ہوا۔ بطور ڈپٹی ایڈیٹر میں دیگر شہروں کے ایڈیٹرز اور میگزین ایڈیٹرز سے روزانہ بات کرتا۔شبیر سومرو کراچی سٹیشن پر میگزین ایڈیٹر تھے۔ منفرد موضوعات پر فیچر بھیجا کرتے۔ روزنامہ 92نیوز شروع ہوا تو برادرم عامر خاکوانی نے کراچی سے شبیر سومرو کو میگزین میں ساتھی بنا لیا۔ یوں ہم دونوں ایک بار پھر ایک ہی ادارے میں کام کر رہے ہیں۔ باغبانی میرا آبائی کام ہے۔ اپنے بزرگوں کے تجربات کو میں مضامین اور کتابی صورت میں جمع کرتا رہتا ہوں۔ چار پانچ برس گزرے ہم نے ایک تجربہ کیا۔ کوہاٹ میں زیتون کے ایک باغ سے پچاس ہزار کٹنگز لے کر لاہور میں لگائیں۔موسم ، تیکنیک، دیکھ بھال جیسے مسائل ہمارے سامنے تھے کچھ قلمیں خراب ہو گئیں لیکن تیس ہزار کے قریب پھوٹ نکلیں۔ زیتون کی افزائش کے ضمن میں نجی شعبے میں یہ سب سے بڑا منصوبہ تھا۔ تب سے زیتون کی افزائش، اقسام، منصوبوں، تیل کشیدگی، مصنوعات اور مارکیٹنگ کی سرگرمیوں سے کسی حد تک آگاہ رہتا ہوں۔گزشتہ برس دسمبر میں سرمد خان، طاہر علی بندشہ، عامر خاکوانی اور خاکسار کراچی کتاب میلہ پر اکٹھے ہوئے تو شبیر سومرو سے برسہا برس کے تعارف کے با وجودپہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ سادہ اور زمین سے جڑے آدمی ہیں۔شبیر سومرو میں اسی طرح سندھ ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے جیسے میرے اندر پنجاب لہلہاتا ہے۔ ان کی کتاب ’’پاکستان میں زیتون کی کاشت‘‘ تازہ تازہ شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب میرے لیے بہت اہم تھی۔ پچھلے ایک سال میں ایک سو سے زائد کتابیں خریدی ہیں۔ ایک ایک کر کے بڑھ رہا ہوں۔ چند روز قبل فون کیا اور شبیر صاحب کو بتایا کہ کتاب پڑھ چکا ہوں، جلد لکھوں گا۔ شبیر سومرو نے کمال یہ کیا ہے کہ جہاں پاکستان میں زیتون کے متعلق ہماری معلومات درست کیں وہاں ایک تاریخی ریکارڈ بھی مرتب کر دیا۔ہم لوگ اس غلط فہمی میں رہے کہ زیتون کی شجرکاری ایوب خان کے دور میں ہوئی تھی۔شبیر سومرو نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ زیتون کے باغات دیکھے، ماہرین کے انٹریو کئے۔ تفصیلات جمع کیں۔ اس کام میں انہیں دعا فائونڈیشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر فیاض عالم کا بھرپور تعاون اور ساتھ میسر تھا۔شبیر سومرو بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر فیاض عالم شجرکاری، باغبانی اور ماحولیات کے حوالے سے کئی کارنامے انجام دے چکے ہیں۔ میں نے سومرو صاحب سے وعدہ لیا ہے کہ اس بار کراچی آنا ہوا تو وہ ہمیں ڈاکٹر فیاض عالم کے شجرکاری و باغبانی منصوبے دکھانے تھر ضرور لے کر جائیں گے۔ کتاب بتاتی ہے کہ پاکستان میں 45ہزار ایکڑ پر زیتون کے 56لاکھ درخت لگائے جا چکے ہیں تاہم زیادہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کسان ابھی تک اپنے کھیتوں میں بڑے پیمانے پر زیتون نہیں لگا رہا۔ سماجی شعبے کی عملی دلچسپی بھی بالعموم زراعت اور خاص طور پر زیتون کی طرف نہیں ہے۔ ملک میں صرف ایک ہی قسم کی زیتون کا تیل حاصل کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا میں کئی معیار کے تیل نکالے جاتے ہیں۔ زیتون کے ’’کھل‘‘ سے آئل حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ نجی اداروں کے پاس حالانکہ یہ تیل نکالنے والی مشینیں موجود ہیں۔ چند برس قبل سون سکیسر جانے کا اتفاق ہوا۔ائیر فورس کی بیس پر ہمیں لینڈ سکیپنگ کا ایک منصوبہ تیار کرنا تھا۔ وہاں لاکھوں پودے جنگلی زیتون کے نظر آئے۔میں نے بیس انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ وہ ان جنگلی زیتون پر اچھی پھلدار اقسام کی گرافٹنگ کروا لیں۔ شبیر سومرو نے بہت سے علاقوں کا سفر کیا اور جنگلی زیتون کے متعدد ذخائر کو ریکارڈ کیا۔ انہوں نے کامیاب اور ناکام رہنے والے تجربات کی تفصیلات بیان کیں، کئی ماہرین اور ان کی خدمات کا ریکارڈ کتاب میں شامل کیا۔ میرے لیے یہ بات باعث حیرت تھی کہ زیتون کی قسم Olea europaea ،1866میں ہینڈ رسن نامی انگریز نے پنجاب میں متعارف کرائی۔ ہینڈرسن کا کلکتہ بوٹینیکل گارڈن تبادلہ ہونے پر یہ پودے دیکھ بھال سے محروم ہو گئے ۔دوسرا کوئی ان کی ضروریات کو سمجھنے والا نہ تھا،پودے سوکھ گئے۔ گورنر پنجاب کی ہدایت پر بعد ازاں فرینک مچل نے کشمیر، خیری مورت، شاہ پور ضلع میں سکیسر اور جہلم میں رکھ گھنڈالا میں اس کے پودے لگوائے۔ یہ وہی فرینک مچل ہیں جنہیں رینالہ خورد اوکاڑہ میں مچلز گارڈن کا بانی کہا جاتا ہے۔ جن کی گولیاں ٹافیاں اور اچار چٹنیاںمارکیٹ میں ہیں۔ فرینک مچل نے یہ پودے 1907ء میں لگوائے تھے۔ 1912میں ترناب(کے پی) میں رابرٹسن برائون نے سو زیتون لگائے۔ فرینک مچل نے زیتون کی جو چھ اقسام کاشت کیں ان میں سے ایک کا نام لاہور تھا۔مجھے اس کی تفصیلات درکار ہیں ، شبیر سومرو سے ملاقات ہوئی تو اس بابت ضرور تفصیلی بات کروں گا۔ 1935ء میں پنڈی مری روڈ پر ساڑھے چھ ایکڑ میں زیتون لگائے گئے۔ 1950ء میں نہری علاقوں میں زیتون متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔ مصر، شام اور ترکی سے پودے درآمد کئے گئے۔ 1957ء میں اٹلی سے 800پودے منگوائے گئے۔ ایک ماہر نے بتایا کہ سوویت یونین کی شکست کے کچھ عرصہ بعد جب افغانستان میں پاکستان کے دوست طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے چند سو زیتون کے پودے افغانستان سے منگوانے کی کوشش کی لیکن طالبان پودے دینے پر تیار نہ ہوئے۔ بعد ازاں ایک تاجر نے لاکھوں قلمیں ٹرک پر لاد کر بھیج دیں لیکن پاکستان کے کسٹم حکام نے ٹیکس کے علاوہ اپنا حصہ طلب کر لیا۔ خیر یہ معاملہ بڑی دقت سے طے ہوا۔ اسی طرح ایک دلچسپ واقعہ جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے ہے۔ پرویز مشرف کو زیتون کے تیل کی ضرورت پڑی۔ ہزار مسائل سے نمٹنے کے بعد انہیں مقامی کشید کیا گیا تیل فراہم کیا گیا اور دقتوں سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ ٹائپسٹ کی غلطی سے 70ملین کی بجائے منصوبے کی رقم 700 ملین لکھی گئی۔ حیرت یہ کہ جنرل صاحب نے اس کی بھی منظوری دیدی۔ اس رقم سے کافی کام ہوا۔بعد ازاں شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ زیتون کاشت میں دلچسپی لی لیکن ان کے دور میں اشتہارات سے بات آگے کم ہی بڑھی۔ عمران خان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے زیتون کے لاکھوں پودے لگوائے۔زیتون سات سال بعد پھل دیتا ہے ،امید ہے کہ اگلے تین چار سال میں پاکستان زیتون کا تیل پیدا کرنے میں خود کفیل ہو جائے گا۔ کتاب میں ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر اے رحیم چودھری، اے رحمن خان اور صلاح الدین سلیمان، ڈاکٹر زرقریش، احمد سید، ڈاکٹر عظمت علی اعوان، فلک ناز شاہ، ڈاکٹر عابد محمود، ڈاکٹر منیر گورایہ، ڈاکٹر محمد طارق،محمد عظیم طارق، محمد اشرف سمرا، ڈاکٹر محمد رمضان انصر، اظہار فارم، ملک فتح خان، وسیم الدین وڑائچ، چودھری اللہ دتہ، عمر مختار سمیت متعدد ماہرین کی خدمات اور تحریریں شامل ہیں، کتاب دعا فائونڈیشن، سیکنڈ فلور، بلقیس ناز میڈیکل سنٹر، فیڈرل بی ایریا کراچی نے شائع کی ہے۔