پاکستان میں رہنے والے افغان باشندوں کو 31اکتوبر 2023کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی کہ وہ افغان باشندے جن کے پاس کاغذات نہیں ہیں وہ پاکستان چھوڑ دیں اس وقت پاکستان میں 40لاکھ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن میں سے 22لاکھ افغان باشندوں کے پاس افغانستان کا پاسپورٹ یا حکومت پاکستان کی طرف سے دیا جانے والا مہاجرین کارڈ موجود ہے جبکہ تقریبا 17لاکھ افغان ایسے ہیں جن کے پاس کوئی بھی کاغذی دستاویز موجود نہیں ہے۔ ایسے تمام لوگ جن کے پاس کوئی مصدقہ دستاویز موجود نہیں ہے، ان کو 31اکتوبر 2023تک کا ٹائم دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی سرزمین چھوڑ دیں اس کے بعد حکومت پاکستان ان کو زبردستی پاکستان سے بے دخل کر دے گی۔1979سے لے کے اب تک افغان مہاجرین پاکستان آتے رہے ہیں جس میں ایک بڑی تعداد طالبان کے افغانستان میں دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کی صورت میں یہاں آئی جو کہ کوئی چھ لاکھ کے لگ بھگ تھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا پاکستان سے افغانستان منتقل ہونا کافی بڑا مسئلہ ہے یہاں پہ کافی افغان کوئی 40سال سے رہ رہے ہیں یہاں پہ ان کی تیسری نسل موجود ہے کچھ لوگوں نے پاکستان میں ہی آنکھ کھولی اور وہ پلے بڑے ہیں اور یہیں پہ بعد میں انہوں نے شادیاں کیں اور اب بچے بھی جوان ہو چکے ہیں۔ اتنے طویل عرصے کے بعد ان کو پاکستان چھوڑنا کافی مشکل نظر آرہا ہے۔ حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ بڑے بھاری دل کے ساتھ کیا ہے کیونکہ حکومت کا خیال ہے کہ حالیہ بم دھماکوں میں افغان باشندے شامل ہیں اس لیے حکومت نے ان تمام افغانوں کو جن کے پاس کوئی مناسب دستاویزات نہیں ہیں ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب پاکستان پہ کئی جانب سے بڑا پریشر ہے کہ وہ ان افغانوں کو پاکستان سے نہ نکالے پہلے نمبر پہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستان کو کہا ہے کہ پاکستان ان افغانوں کو نکالنے میں جلدی نہ کرے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب یہ مہاجرین افغانستان میں پہنچیں گے تو ان کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوں گے ایک تو وہاں پہ اب ان کا گھر بار نہیں ہے ان کے پاس روزگار نہیں ہے اور پاکستان میں رہنے والے افغان باشندوں کی خواتین تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں۔جبکہ افغانستان میں طالبان کی شکل میں ان کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواری ہوگی۔ حکومت پاکستان کے اس فیصلے سے پاکستان اور افغانستان کی حکومت کے تعلقات کافی کشیدہ ہو چکے ہیں اس فیصلے کے پاکستان کی مقامی سیاست پر بھی بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ افغانستان اور خیبر پختون خواہ میں رہنے والے باشندوں کی اکثریت پختون ہے وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا مذہبی پس منظر ایک ہی ہے ان کی آپس میں رشتہ داریاں بڑے عرصے سے چلی آ رہی ہیں۔ اب اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا ہے تو اس کے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں بھی بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے کچھ سیاسی لیڈر افغان کارڈ بلکہ پختون کارڈ استعمال کر سکتے ہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں اکثریت پنجاب سے تعلق رکھتی ہے تو اس فیصلے کے بعد پختونوں اور پنجابیوں کے تعلقات بھی کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی مشرقی طرف سے خطروں میں گھرا ہوا ہے اب پاکستان کی مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ابھی پاکستان میں رہنے والے پختون عوام کے لیے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں وہ نسلی لحاظ سے افغانوں کے زیادہ قریب ہیں اور انتظامی لحاظ سے وہ پاکستان کا حصہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یکم نومبر کے بعد حکومت پاکستان یہاں موجود افغان باشندوں سے کیا سلوک کرتی ہے اور ان کو کس طرح پاکستان سے افغانستان روانہ کرتی ہے افغانوں کی واپسی عالمی سطح پر بھی ہمارے لیے پرابلم کھڑے کر سکتی ہے اور مقامی سیاست میں بھی اس کے اثرات بڑے گہرے ہو سکتے ہیں۔ ملک جب ایک طرف الیکشن کے قریب جا رہا ہے اور امید کی جا رہی ہے آئندہ سال فروری میںعام انتخابات ہو جائیں گے تو اس سے پہلے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے۔ ان حالات میں الیکشن مہم کیا ہوگی اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ،آنے والے وقت میں خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے پختون اکثریت کے علاقوں میں کوئی نیا نعرہ بھی جنم لے سکتا ہے ہماری حکومت کو بہت سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا ہوگا اس وقت پاکستان کی نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی ایک پختون ہیں۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرے گی۔افغان مہاجرین کی واپسی سے پاکستانی معاشرے پر بھی بڑے غیر اثرات مرتب ہوں گے۔اس وقت بہت سارے کاروبار ایسے ہیں جو کہ افغانی کر رہے ہیں۔ بوٹ پالش کرنے والے لوگوں کی اکثریت افغانیوں کی ہے۔ اسی طرح ریڑی پر مونگ پھلی اور مکی کے بھٹے بیچنے والے بھی اکثریت افغانیوں کی ہے۔ راولپنڈی پشاور اور کراچی میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں افغانیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اب پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری میں بھی بہت سارے افغانی لوگ شامل ہیں۔ پاکستان میں جومال سمگل ہو کے آتا ہے چین اور سینٹرل ایشیا کی ریاستوں سے، اس میں بھی افغانی لوگ زیادہ ملوث ہیں۔ اب ان افغانیوں کے پاکستان چھوڑ دینے کے بعد ان کاروبار میں پیدا ہونے والا خلا کون پیدا کرے گا ۔یہ بھی آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت پاکستان میں جو ڈرگ کا بزنس ہے اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے افغانی ملوث ہیں۔اسی طرح ناجائز اسلحہ کی فروخت میں بھی افغانوں کا نام لیا جاتا ہے۔ افغانستان کی پاکستان سے نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جس طرح سے انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں افغان کھلاڑی نے اپنے مین اف دی میچ اوارڈ کو پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغانوں سے منسوب کیا ہے وہ ہمیں تصویر کا ایک بڑا بھیانک رخ دکھا رہا ہے۔