عید کے دوسرے دن مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور میں دلخراش سانحہ رونما ہوا، غربت سے تنگ آکر ایک شخص نے اپنے سات بچوں اور بیوی کو قتل کر دیا، یہ واقعہ پاکستان کی اقتصادی پالیسی بنانے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے، علی پور کے غریب گھرانے کا کسی کو فکر نہیں، حکومت نے بھی نوٹس نہیں لیا اور میڈیا کا کردار بھی ایک سوال ہے، علی پور میں جس سے بھی پوچھا اُس نے سانحہ کا باعث غربت اور بیروزگاری کو قرار دیا، پاکستان میں چہرے تبدیل ہوتے آرہے ہیں، نوازشریف دور میں اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے ، غربت غریبوں کو ڈکارتی رہی، عمران کے دور میں عظیم ماہر اقتصادیات اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا گیا جس نے آتے ہی کرنسی ڈی ویلیو کرنے کا فرمان جاری کیا جس سے پاکستان کی بیمار معیشت کو وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا، نگرانوں کے کرتب بھی سب کے سامنے تھے، اب عالمی اداروں کے فرمان پر نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منصب سنبھالا ہے اور وہ آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے حصول کیلئے امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کو حسب روایت عالمی اداروں کے سہارے پر چلانا ہے تو پھر نئے وزیر خزانہ کی مہارت کہاں گئی؟ وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر گئے، وہاں سے خوشخبری لائے کہ سعودی عرب ریکوڈک منصوبے میں ایک بلین ڈالر سرمایہ کاری کرے گا، اس طرح کے خوش کن اعلان ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ثمرات غریبوں تک تو نہیں پہنچتے۔پاکستان میں غربت اور بیروزگاری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ عام آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں سرائیکی وسیب سمیت بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں غربت کی صورتحال ازاں ابتر ہے اور ان علاقوں میں غربت کے باعث خودکشیوں کی شرح زیادہ ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی کئی گنا زیادہ غریب ہیں کیونکہ ہمارا ملک خوراک کی قلت اور غذائی ضروریات کی شدید کمی سے دوچار ہے۔عالمی بینک کی پورٹ کے مطابق سال 2011 میں بین الاقوامی غربت کی لکیر یومیہ 0.99 ڈالر تھی جبکہ خوراک میں غربت کی لکیر مشاہدہ کرتی ہے کہ ہر ایک بالغ شخص کو یومیہ 2 ہزار 350 کیلوریز ملنی چاہیے۔ان ممالک کے قابل استطاعت اشاریے سے معلوم ہوتا ہے کہ خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فی کس گھریلو آمدنی 52 فیصد ہے، مثال کے طور پر پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان کی ماہانہ آمدنی 25 ہزار ہے، جس میں سے ایک دن کی 2 ہزار 350 کیلوریز کی خوراک کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ایک فرد کی ماہانہ آمدنی 2 ہزار 600 روپے ہے۔ متحدہ پاکستان کے صوبہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے مقابلے میں غربت بہت زیادہ تھی، لوگوں کو ضروریات زندگی میسر نہ تھیں، تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل گھمبیر تھے، مگر مشرقی پاکستان جب بنگلہ دیش بنا تو وہ ترقی کر گیا، آج بنگلہ دیش کا ہر گھر چھوٹی موٹی صنعت میں تبدیل ہو چکا ہے، بنگلہ دیش کی خواتین مردوں سے بڑھ کر کام کر رہی ہیں، چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کیلئے بنگلہ دیش کے بینکوں نے اہم کردار ادا کیا، پاکستانی بینک مافیاز کا روپ دھا ر چکے ہیں، اُن کا کام معیشت کا خون نچوڑنے کے سوا کچھ نہیں، بنگلہ دیش کی طرز پر حکومت نے خوشحالی بینک قائم کیا، جس نے تجارت کرنے کے خواہشمند نوجوانوں کو بدحال کر دیا ہے، دیگر ٹیکنیکل مسائل کے علاوہ سود کی شرح بھی زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غربت اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے، نوجوان ذہنی مریض بن رہے ہیں۔سال 2020 کے اعدادوشمار کے مطابق جب 83.5 فیصد آبادی صحت مند خوراک حاصل کرنے میں ناکام تھی تو کورونا وبا اور سیلاب کے بعد یہ صورتحال انتہائی بدتر ہوگئی تھی۔گیس، بجلی کے بل، مکان کا کرایہ، بچوں کی فیسیں، ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے، مہنگائی کا سرمایہ داروں کو فائدہ ہوتا ہے، جبکہ غریب پس جاتے ہیں، سرکاری سیکٹر میں سالہاسال سے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں، فیکٹریاں، کارخانے بند ہیں، پاکستان کے سرمایہ دار اور صنعتکار بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں اور اجازت مانگ رہے ہیں کہ اُن کو اپنے ملک میں آنے دیا جائے، یہ صورتحال آگے چل کر کتنی تباہی لائے گی، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ غربت کے خاتمے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں خرابیاں موجود ہیں، رجسٹرڈ 22 لاکھ خاندانوں میں سے بہت سے صاحب ثروت خاندان بھی شامل ہیں، مزید یہ کہ بھکاری کی کھیپ تیار کرنے کی بجائے ان خاندانوں کو کاروبار کی طرف راغب کیا جائے، 22 لاکھ خاندانوں کو شفاف بنیادوں پر بلا سود قرضے دیئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک ترقی نہ کرے اور غربت ختم نہ ہو، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل آپریشن مختیار احمد کہتے ہیں کہ اگلے سال تک بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ حاصل کرنے والے خاندانوں کی تعداد پچاس لاکھ تک بڑھائی جائے گی،لیکن غربت کا خاتمہ صرف اور صرف اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کے بڑھنے سے ممکن ہے۔ ادھر ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے، اس صورتحال کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، پوری امت مسلمہ کو اسرائیل کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے، مگر یہ کیا بات ہوئی کہ غزہ میں فلسطینی مارے جا رہے تھے اور ایران پر امریکی پابندیاں نرم ہوئیں، عالمی برادری میں پاکستان کو آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی اور نہیں بلکہ پاکستان کے تابع ہونی چاہئے۔