پسماندہ علاقوں کی ترقی ایک خواب رہی ہے، پنجاب پر میاں برادران تیس سال بر سر اقتدار رہے، اس دوران یہ بھی ہوا کہ بہت سے مواقع پر صوبے کے ساتھ مرکز بھی ان کے پاس تھا۔ میاں صاحبان کے دور میں ترقی کا محور و مرکز صرف لاہور رہا، (ن) لیگ بنیادی طورپر صرف پنجاب کی جماعت ہے مگر ترقی کے حوالے سے سرائیکی وسیب کو نظر انداز کر کے وسیب کے وسائل لاہور پر خرچ ہوئے ہیں ، یہ تو تھی میاں برادران کی بات ، میاں برادران کا تعلق لاہور سے ہے مگر ستم یہ کہ نگران دور میں بھی ترقی کا محور اور مرکز لاہور ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے اجلاس میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جاری 43 ترجیحی منصوبوں پر پیشرفت کاجائزہ لیا اور ڈرون فوٹیج کے ذریعے 43 منصوبوں پر ڈویلپمنٹ پراگریس کا مشاہدہ کیا،ہر پراجیکٹ کے انتظامی ومالیاتی امور کا جائزہ لیا، وزیر اعلیٰ کو منصوبوں کی پیشرفت بارے آگاہ کیا گیا ۔ نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا پہلا گھر جھنگ اور دوسرا لاہور میں ہے۔ موجودہ 43 بڑے منصوبوں کی تکمیل کیلئے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم دن رات کوشاں ہے مگر ان بڑے منصوبوں میں صرف دو تین منصوبے سرائیکی وسیب کے ہیں باقی کا تعلق لاہور سے ہے، حالانکہ صرف لاہور پاکستان کا نام نہیں ، ٹیکس آمدنی پیداوار میں سرائیکی وسیب سب سے آگے ہے اس کے باوجود محرومی کیوں؟ لاہور کو فلائی اوورز اور انڈر پاسز کا شہر بنا دیا گیا ہے، ترقی سے کسی کو اختلاف نہیں مگر ترقی برابر اور یکساں ہونی چاہئے، فلائی اوور اور انڈر پاسز صرف لاہور نہیں سرائیکی وسیب کو بھی درکار ہیں ، خشک راوی پر نصف درجن سے زائد پل بنائے گئے ہیں ، کسی کو اعتراض نہیں مگر سرائیکی وسیب دریائوں کی سر زمین ہے، وسیب کے مختلف دریائوں پر دو درجن پل فوری درکار ہیں اس طرف توجہ کیوں نہیں؟ نگران حکومت کا کام شفاف الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے ، بڑے منصوبے مشاور ت اور کابینہ کی منظوری سے منتخب حکومت کا کام ہوتا ہے اس کے باوجود نگران دور میں بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے تو نگرانوں کو یکساں ترقی کی طرف توجہ دینا ہو گی کہ انہوں نے کسی خاص علاقے سے نہ الیکشن لڑنا ہے اور نہ ووٹ لینے ہیں۔ یکساں ترقی کے مواقع نہ ملنے سے احساس محرومی پیدا ہوتا ہے، غیر منصفانہ سلوک کے نتیجے میں نفرت جنم لیتی ، یہی نفرت آگے چل کر تضادات اور جغرافیے بدلنے کاباعث بنتی ہے۔ محرومی سرائیکی وسیب کا تو مقدر ہے ہی تاہم پنجاب کے بھی بہت سے علاقے خصوصاً دیہی علاقوں میں ترقی کی ضرورت ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے با اختیار ہوئے، مرکز کے بہت سے محکمے صوبوں کے پاس آ گئے، بہت بڑا مالیاتی ایوارڈ حاصل ہوا، وسیب کو کیا ملا؟ شہباز شریف جب صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ وسیب کے لیے 33 فیصد بجٹ الگ کر دیا گیا ہے اور 20 فیصد ملازمتوں کا حصہ بھی مختص کر دیا گیا ہے مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوا۔ عثمان بزدار کا دور آیا تو انہوں نے سول سیکرٹریٹ قائم کیا اور بجٹ کا حصہ 35 فیصد کرنے کا اعلان کیا مگر اس پر بھی عمل درآمد نہ ہوا جبکہ سول سیکرٹریٹ کو نہ اختیار ملے اور نہ ہی فنڈز۔معمولی تبادلے کے لیے بھی لوگوں کو لاہور جانا پڑتا ہے۔ مزید ستم یہ ہوا ہے کہ لاہور کے علاوہ ملتان اور بہاولپور کے دھکے بھی پڑ گئے ہیں۔وسیب کے لوگ مزید محرومی اور مزید مشکلات کا شکار ہوئے، ترقی یافتہ علاقے مزید ترقی یافتہ ہو گئے ، کمزور اور محروم علاقوں کو مزید کچل دیا گیا ، آج اگر محروم لوگ فریادکناں ہیں تو اس پر غور کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ وسیب کی جانب سے یک عرصہ سے صوبے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگرسات کروڑ سرائیکی عوام کے اس اہم مسئلے پر توجہ نہیں دی جا رہی ۔ آج ہم سے ایک طالب علم تو کیا وسیب کا موروثی سیاستدان بھی سوال کرتا ہے کہ صوبے کا کیا فائدہ ہے، اگر انہی موروثی سیاستدانوں نے اپنی اولادوں کو وسیب کی تاریخ، جغرافیہ، اور تہذیبی و ثقافتی پس منظر کے ساتھ ساتھ ساتھ وسیب کی محرومیوں کے بارے میں بتایا ہوتا تو آج یہ نوبت کیوں پیش آتی۔ایک عرصہ سے صوبے کے فوائد کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ فائدہ ایک نہیں ہزار ہیں،وسیب کا اپنا صوبہ، خطے کی شناخت کا ضامن ہوگا۔ صوبہ بننے کے بعد وسیب کا اپنا گورنر، وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری، سپیکر اسمبلی اور وزیر ہونگے جو اپنے وسیب کی عوام کو جوابدہ ہونگے۔ وسیب کی اپنی ہائیکورٹ ہوگی اور سپریم کورٹ کا علیحدہ بنچ ہوگا۔ سی ایس ایس کا کوٹہ الگ ہوگا اور اپنا پبلک سروس کمیشن ہوگا۔وسیب کی اپنی پولیس اور وسیب رجمنٹ ہوگی، کیڈٹ کالجوں کا اجراء ہوگا جس سے وسیب کے لوگ فوج میں کمیشن حاصل کر کے جرنیل کے عہدوں پر پہنچ سکیں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صوبے کے سب سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں نوکریاں صرف وسیب کے تمام لوگوں بشمول سرائیکی، پنجابی ،اردو کو ملیں گی۔آج ملازمتوں میں وسیب بد ترین استحصال ہو رہا ہے،صوبہ بنے گا تو صوبائی محکمے وسیب کے لوگوں کیلئے ہونگے، فارن سروسز کی ملازمتوں میں حصہ ملے گا اور وسیب کا اپنا علیحدہ صوبائی بجٹ ہوگا جو صرف وسیب پر خرچ ہوگا۔صوبے کے ساتھ وسیب میں زرعی آمدن، دولت اور وسائل وسیب کی ترقی کیلئے خرچ ہونگے اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی۔ سرائیکی وسیب کا عادم آدمی اس وقت زیادہ پریشان ہے، غربت اور بیروزگاری کے عذاب سے ابھی وہ چھٹکارا نہیں پا سکا تھا کہ مہنگائی کے عذاب نے اسے مزید عذابوں میں مبتلا کر دیا ہے، کسی کو کوئی ہمدردی نہیں ، ا ان کے مسائل کے حل کے لئے آج تک کسی نے نہیں سوچا۔ ان مسائل کی چار بنیادی وجوہات ہیں ، پہلے نمبر پر وسیب کے سردار ، بھتار ، تمندار اور وڈیرے وسیب کے پرانے سود اگر ہیں ، بیورو کریسی وسیب پر قابض ہے ،اب وقت آ گیا ہے کہ استحصالی قوتوں کو باز رکھا جائے اورپسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔