ٹھیک کہتے ہو تم بھی مری جاں مگر اشک تھمتے نہیں ٹوٹ جاتے ہیں جب دل کے دیوار و د اشک تھمتے نہیں وقت لوگوں میں میں نے گزارا بہت ہے مگر کیا کہوں اپنے اندر کی جیب سے ملی ہے خبر اشک تھمتے نہیں کوئی جان لیوا سانحہ ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ اشک اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتے، اگر انہیں روکا جائے تو اور تباہی مچاتے ہیں کہ صبر بھی تو آن پڑتا ہے کار فرہا سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو لیکن موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں والا فلسفہ بھی اپنی جگہ۔ کچھ سانحے جان لیوا ہوتے ہیں، کتنی صدیاں بندھیں میرے پیروں تلے پھر بھی احساس ہے۔منزلیں ہیں وہی اور وہی رہ گزر اشک تھمتے نہیں کیوں ہیں پابندیاں میری پرواز پر سعد بتلائو تو میری آنکھوں میں چھبنے لگے بال و پر اشک تھمتے نہیں۔ ان تجرباتی اظہار کے بعد آمدم برسر مطلب کہ مجھے پشاور سانحہ پہ لکھنا ہے مگر کیا لکھوں کہ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ اپنے ہی ہاتھوں سے پالے ہوئے ناسور بنتے جا رہے ہیں، اپنے ہی کھودے ہوئے کھڈے اور پھر یہ بے رحم موسم ، کاش یہ حادثہ کہ قیامت خیز ہے ہمیں ایک پیج پر لے آئے ،اب تو تمام صفحات کی شیرازہ بندی کی ضرورت ہے، ہم سے تو شہر کے مکان اچھے کہ منیر نیازی نے کہا تھا اک دوجے دے خوف نال اک دوجے دے بال جڑے شہر دے مکان۔ہمارا آشیانہ بنانے والے تو آسودہ خاک ہوئے کیا ہم اسے بچانے کیلئے مل کر بیٹھ نہیں سکتے۔یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا۔مزید غلطیاں کرنے کی ہمارے پاس گنجائش نہیں۔پشاور پولیس لائنز مسجد میں ہونیوالا دھماکہ کہ جس میں 93 پاکستانی شہید ہو گئے اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہیں، ہمارے دلوں پر قیامت ڈھا گیا ہے اس پر صرف بڑھکیں مارنے سے کچھ نہیں بنے گا کہ دہشتگردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے وغیرہ یہ بیانات ماضی بن چکے کہ معنی و مفہوم سے عاری ہیں۔ کوئی ٹھوس حکمت عملی ضروری ہے کہ ان ظالموں کو سزا دینے کا رواج ڈالا جائے، سکیورٹی کے نظام کو بہتر سے بہتر بنایا جائے ،ہم ہر حادثے کے کچھ دن بعد پھر خواب غفلت میں چلے جاتے ہیں، مگر ہمارے دشمن الرٹ ہیں اور موقع تلاش کر لیتے ہیں، اب یہ بات تکلیف دہ ہے کہ ظہر کی نماز پر اگلی صف میں کھڑا شخص خود کو اڑا لیتا ہے۔پولیس لائنز مسجد میں یعنی کوئی چیک نہیں تھا یہ بھی پتہ چلا کہ متعلقہ شخص دو دن سے وہیں تھا۔حیرت ہوتی ہے ہم بغیر سوچے سمجھے سانحہ میں سے بھی اپنی مطلب براری شروع کر دیتے ہیں، کسی نے فوراً بیان داغ دیا کہ عمران خاں کو فوراً پشاور جانا چاہیے کہ ان کی وہاں حکومت ہے کیا احمقوں والی بات ہے کہ عمران وہاں پہنچے جبکہ اس سے تو ساری سکیورٹی بھی ہٹا لی گئی ہے، دوسری بات یہ کہ عمران نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے ایک اور بیان کہ فیصل کنڈی کا انتہائی غیر محتاط ہے کہ عمران نے دہشت گردوں کو پناہ دی، زرداری پر الزام لگا کر دہشت گردوں سے مدد مانگی۔یہ اپنی جگہ درست کہ خان صاحب کو زرداری پر بے بنیاد الزام نہیں دھرنا چاہیے تھا جس پر زرداری صاحب دس ارب روپے ہرجانہ کا دعویٰ کرنے جا رہے ہیں۔مگر اس غلطی کے جواب میں خان صاحب پر کنڈی صاحب کا وار بھی بڑا کاری ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دہشت گردی کے حملے کو پورے پاکستان پر حملہ تصور کیا جائے، کاش یہ قیامت خیز سانحہ ہمیں اکٹھے بیٹھنے پر مجبور کر دے کہ ہم سب مل کر اپنے وطن کی حفاظت کریں۔اس واقعہ نے پشاور ہی میں نہیں ہر جگہ خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔چاہیے یوں کہ حکومتی اداروں پر نہ رہا جائے سول لوگ اپنی حفاظت پر خود غور کریں، خاص طور پر مارکیٹیں تو بہت حساس جگہ ہیں ،ایک تو ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہیں، انتہائی شرمناک اور گھٹیاں سیاسی صورت حال اس پر برباد اور تباہ شدہ معیشت اقتدار کے لئے اوچھے ہتھگنڈے کیا ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہم نے مل کر ملک کو دیوالیہ کرنا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بار بار الیکشن ہماری قوم پر ظلم نہیں طاقتوروں کو چاہیے کہ ان سب کو اکٹھے بٹھائیں یہ اتنے پتھر دل ہیں کہ اپنے مفاد پر وطن کی سلامتی وارنے کے لئے تیار ہیں۔بار بار آئین کا حوالہ دیتے ہیں مگر کیا آئین یہ نہیں بتاتا کہ وطن کی آبرو بچائی جائے اور لوگوں کو جیتے جی نہ مارا جائے، اللہ کے واسطے کیا ہم پاگل ہو گئے ہیں آپ نے ایک شخص کو دس سیٹوں پر لڑنے دیا اور اس کا نتیجہ سامنے ہے، اب اسے 33سیٹوں پر لڑنے کی اجازت دے رہے ہیں۔جی جی بالکل آئین اجازت دیتا ہے، اللہ کے واسطے سوچئے کہ یہاں عقل کا گزر ہے یا نہیں۔ سوچ سوچ کر دماغ مائوف ہو جاتا ہے کہ آخر تم اس کرائسز سے کیسے نکلیں گے، ایک نفرت ہے بس حد سے بڑھی جاتی ہے لوگوں کی زبانیں بہت کھل چکی ہیں کسی کی عزت محفوظ نہیں ابتری مکمل طور پر پھیل چکی ہے قانون کی کہیں بھی پذیرائی نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے کہ آخر ہر نفس کو اپنا پیٹ تو بھرنا ہے بے روزگاری سب کے سامنے ہے پھر شدید تنگی میں تو حرام حلال ہو جایا کرتا ہے۔یہ پیٹ کچھ بھی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، اشرافیہ کے پاس ٹیکس بچانے کے ہزار طریقے مگر مڈل کلاس قدم قدم پر ٹیکس دے رہی ہے پروڈکشن کے ہر مرحلے پر ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ وہ کسی کو بھی لائیں میرا مطلب آئی ایم ایف کے کرتا دھرتا ایجنڈا ان کا ایک ہی ہے۔اسلم بیگ صاحب کی بات بھی غلط نہیں کہ امریکہ دوبارہ افغانستان میں اپنا کردار بڑھانا چاہتا ہے ،پاکستان پر حملے اسی کا شاخسانہ ہے امریکہ پاکستان کو دبائو میں لانا چاہتا ہے ،بھارت اپنا رول ادا کر رہا ہے۔ان سب کا ایجنڈا اسلامی فوبیا کے تحت ہے عالمی ادارے اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں وہ ہماری بربادی کے گن گا رہے ہیں اب بھی منی بجٹ آئے گا 60ارب سے زیادہ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، قرضے کی اگلی قسط کے لئے لوگوں کو قسط وار مارا جا رہا ہے ،سود اور سوّر کا گوشت کھانے بڑے سنگ دل ہوتے ہیں کیا کریں جون یاد آتے ہی میں بھی بہت عجب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ایک بات یاد رکھنے والی ہے کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ہمیں اپنے گھر قدر کرنا ہو گی ۔اہل بصیرت سوچیں کہ حکومتوں کے پاس تو بصیرت کا پرندا نہیں ہوتا صوفی تبسم نے کہا تھا: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو