کسی ملک کی معیشت کی ترقی کا انحصار اس کے سیاسی استحکام ، ذرائع آمدنی کی وسعت ، بہتر انتظامی کارکردگی اور معاشی پالیسیوں کے تسلسل پر ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں یہ چاروں عوامل کمزور رہے ہیں جس کے باعث صورتحال آج اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ریاست کی معیشت کو چلانے کے لئے قرضوں کا حصول بھی مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے۔بڑھتے ہوئے اخراجات اور کم ہوتے ذرائع آمدنی ،اس پر مستزاد سیاسی اور انتظامی بگاڑ، داخلی سلامتی کے مسائل اور انحطاط پذیر ریاست کا قومی اور بین الاقوامی تشخص صورتحال کی سنگینی کے واضح اشارے ہیں ۔ یہ اشارے ہر اس شخص کو نظر آرہے ہیں جس کی زندگی اس معاشی انحطاط کے ہاتھوں افلاس و غربت کی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے ۔حکومت معاشی اور سماجی عدم مساوات کے تفاوت کو کم سے کم کرنے کے ہدف کے حصول کے لئے کوشاں رہتی ہے۔اس کے لئے اپنے اخراجات کو کم کرنا اور ذرائع آمدن بڑھانے کی نتیجہ خیز حکمت عملیوں کو اختیار کرتی ہے مگر پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف نظر آتی ہے ۔یہاں ذرائع آمدنی سکڑتے جارہے ہیں اور اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔تجارتی خسارہ، صنعتی پیداوار میں تنزلی،سرمایہ کاری میں کمی ، آبادی میں اضافہ اور اس کا غیر متوازن پھیلائو پاکستان کی معیشت کی بد حالی کی بڑی وجوہ ہیں۔پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے ذرائع آمدن میں اضافے کے ساتھ اپنے اخراجات میں فوری طور پر کمی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ ریاست کے ذرائع آمدن کا ایک بڑا حصہ مختلف النوع ٹیکسز کے حصول پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جن میں انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی شامل ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس کلچر مختلف وجوہ کی بناء پر نچلی سطح پر ہے۔ ٹیکس کلچر ، یعنی شہریوں میں ٹیکس دینے کی صلاحیت اور اس کو ادا کرنے کی ذمہ داری کا احساس، ٹیکس کے نظام کی جامعیت ،اس کی وصولی کا نظام اور ریاست کے شہریوں کے لئے اس کی افادیت پر مشتمل ہے ۔پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ سے زائد ہے جس میں ٹیکس فائلرز کی تعداد پینتالیس لاکھ کے قریب ہے جو زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ پر مشتمل ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی آبادی ٹیکس کی ادائیگی سے مبرا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ وزارت خزانہ کے مطابق جون 2023ء کے مالی سال کے اختتام پر کل ٹیکسوں کی وصولیابی 7169 ارب روپے رہی۔ وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ مالی سال میں بجٹ خسارہ 6.52 کھرب روپے رہا جو مجموعی قومی پیداوار ( جی۔ ڈی۔ پی ) کے 7.7 فیصد کے مساوی تھا۔ پاکستان میں ٹیکس کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔جب تک ملک کی سطح پر ذرائع آمدن میں اضافہ نہیں ہوگا معیشت کی بحالی اور اس کی ترقی کا راستہ نہیں کھل سکے گا۔ عالمی مالیاتی اداروں کا بھی، جو ملک کی معاشی ضروریات کے لئے قرضے فراہم کرتے ہیں ، اس بات پر اصرار ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے اخراجات میں نمایاں کمی کرتے ہوئے ذرائع آمدن کو بڑھانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ ایک اور پہلو جو اس سلسلے میں انتہائی توجہ اور اصلاح کا متقاضی ہے وہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام اور انتظام ہے۔ دونوں ہی ٹیکس دہندگان کے لئے حوصلہ شکن ہیں۔پاکستانی ٹیکس دہندگان کا نیٹ ورک بڑی حد تک محدود ہے ۔ پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے اسے پھیلانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس کے طریقہ ء کار کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ بالواسطہ ٹیکس کے نفاذ سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ تو ہو جاتا ہے مگر اس سے غریب اور متوسط طبقہ کو غیر ضروری اور غیر حقیقی بوجھ کا سامنا رہتا ہے جس سے سماج میں معاشی ناہمواری میں اضافہ اور سہولیات زیست میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بالواسطہ IN-DIRECT) (ٹیکسوں کے نفاذ کی حوصلہ شکنی اور بلا واسطہ ( DIRECT ) ٹیکسوں کی حوصلہ افزائی سے ہی مثبت معاشی عمل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔پاکستان میں ٹیکس کلچر کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ مضبوط ہو ۔ شہریو ں کو جب تک اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ حکمرانوں کی مراعات اور ان کی سہولیات کے بجائے عوام کی بہبود اور ان کی فلاح پر خرچ نہیں ہو رہا وہ ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہونگے ۔ تمام ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ریاستوںمیں ٹیکس کلچر کو اسی طرح فروغ حاصل ہوا ہے ۔ریاستوں نے عوامی سہولیات کی فراہمی اور ان کے بہتر زندگی گزارنے کے مواقع پہلے بہتر کئے ہیں تب عوام ٹیکس کی ادائیگی کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی بالعموم شہریوںکے لئے ایک جبر و اکراہ کا معاملہ رہتا ہے مگر جہاں اس کا نظام انصاف پر مبنی اور بدعنوانی سے بڑی حد تک پاک ہو وہاں ٹیکسوں کی ادائیگی اور وصولیابی ایک ہمہ گیر نظم میں ڈھل جاتی ہے۔ پاکستان میں ،جہاں ذرائع آمدن بڑھائے جانے کا اندرونی اور بیرونی ہر دو طرح کا دبائو موجود ہے، ٹیکس کے نظام اور انتظام میں جوہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں : حکمرانوں کو اپنے طرز بود و باش کو اور اخراجات کو کم کرنا ہو گا۔ شہری سہولیات کی فراہمی کو ہر صورت بہتر بنانا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکا م کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ٹیکس کے نظام کو سادہ اور عام فہم کرنا ہوگا۔ بدعنوانیوں پر قابو پانا ہوگا۔ معاشی پالیسیوں میں تسلسل لانا ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر حکمراں طبقہ کو ریاست کے ساتھ اپنے بے لوث تعلق کو ثابت کرنا ہوگا۔پاکستان کا حکمران طبقہ حکمرانی کے لئے پاکستا ن کو موزوں خیال کرتا ہے مگر زندگی وہ یورپ اور امریکہ میں گزارنا چاہتا ہے اس دورخی کو ختم کئے بغیر عوام کا اعتماد کیسے قائم ہو گا اور ریاست کیسے مضبوط ہوگی ۔یہ ہے وہ بنیادی خرابی جو پاکستان کے پنپنے میںبڑی رکاوٹ ہے جس کا دور کیا جانا وقت کا اہم تقاضہ ہے !!!