لاہور(انور حسین سمرائ) پنجاب کی تبدیلی سرکاری نے اپنے ایک سالہ دور حکومت میں صوبے میں انتظامی افسران (اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں) کے تبادلے و تقرریاں میرٹ و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیں، صوبائی سیکرٹریز کے تبادلے سیاسی بنیادوں پر کئے گئے ، چیف سیکرٹری کا دفتر سرکاری خط وکتابت کے لئے ڈاک خانے کا کردار ادا کرتا رہا او ر سال بھر سول انتظامی و پولیس افسران کے تبادلوں کا سیلاب جاری رہا، قانون کے مطابق ان افسران کی تعیناتی کے لئے صوبائی کابینہ کی منظوری لازم تھی جو نہ لی گئی اور یہ اختیار ایڈیشنل چیف سیکرٹری، چیف سیکرٹری اور وزیر اعلی ذاتی طور پر استعمال کرتے رہے ۔ روزنامہ 92کی تحقیقات کے مطابق محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے ایک سینئر افسر نے بتایا صوبہ بھر میں اسسٹنٹ کمشنرز کا تقرر ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کرتے رہے جن میں اکثر مقامی تحصیلوں کے حکومتی پارٹی کے سیاسی افراد کا اثرو رسوخ بھی شامل تھا۔ ڈپٹی کمشنرز اورکمشنرز کی تعیناتی کی منظوری وزیر اعلی پنجاب اکیلے چیف سیکرٹری کی بجھوائی گئی سمریوں پر دیتے رہے اور چیف سیکرٹری نوٹیفکیشن جاری کرتے رہے ۔ ایک سال کے دوران کئی تحصیلوں میں تین سے چار اسسٹنٹ کمشنرز تعینات جبکہ ضلع میں ڈپٹی کمشنرز اور ڈویژن میں دو سے تین کمشنر تبدیل کیے گئے ۔ سیکرٹریز کے تبادلوں میں بھی مستقل پالیسی پر عمل نہ کیا گیا، ایک سینئر بیورکریٹ کو ہفتہ میں چار صوبائی محکموں کا سربراہ لگایاگیا اور آخر کاروہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو تعینات ہوئے تو معاملہ رک سکا۔ 11جولائی کو سیکرٹری بلدیات کو تبدیل کرکے سیکرٹری آب بپاشی جبکہ سیکرٹری آبپاشی کو سیکرٹری بلدیات تعینات کیا گیا جس پر وزیر اعظم نے سخت برہمی کا اظہار کیا کیونکہ سیکرٹری بلدیات کا نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور پنچائیت ایکٹ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو روکنی کمیٹی قائم کی جس کی سفارش پر وزیر اعلی پنجاب کو حکم دیا گیا کہ وہ اس باہمی تبادلے کو منسوخ کریں، تبادلہ ایک ماہ بعدمنسوخ کردیا گیا لیکن تاحال اس منسوخی پر عملدرآمد نہ ہوسکا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب صوبے کی ایک اہم شخصیت کی مداخلت کی وجہ سے اپنے کیے گئے احکامات پر عمل درآمد نہ کروا سکے اور وزیر اعظم کو بھی لاعلم رکھا گیا ہے ۔ایوان وزیر اعلی پنجاب کے ایک سینئر افسر نے بتایا تبدیلی سرکار نے ایک سال میں انتظامی عہدوں پر تبادلوں پر فوکس رکھا ،کئی انتظامی عہدوں پر تین سے چار افسران کوتبدیل کی گیا جس میں سیاسی مداخلت بہت رہی، تبادلوں نے افسران میں بے چینی کو فروغ دیا۔ کئی محکموں میں دو سے تین سیکرٹریز کا تبادلہ کیا گیا جن میں محکمہ خزانہ، ہائر ایجوکیشن، اری گیشن، ہاؤسنگ، لوکل گورنمنٹ، فوڈ، انڈسٹریز، سکولز ایجوکیشن، ایکسائزاور زراعت شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام اور سول سروس ریفارمز کا ایجنڈابھی مکمل نہ ہوسکا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ، سٹی پولیس افسران ، ڈسٹرکٹ پولیس افسران اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے تبادلوں میں بھی مستقل پالیسی پر عمل نہ کیا جاسکا۔