وزیراعظم جناب عمران خان کی ہدایت پر جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقہ کے رُکن پنجاب اسمبلی سردار محمد عثمان خان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں ۔ اب اُن کی کابینہ بھی حلف اُٹھانے کے قریب ہے ۔ اِس لئے کہ اپنے سیاسی حریفوں کی تنقید پر وزیراعظم عمران خان اپنا فیصلہ واپس لینے کے "Mood"میں نہیں ۔ یہ خوب ہے کہ ’’ وزیراعظم نے ، وزیراعلیٰ پنجاب کو  دوبڑؔے ۔ ’’ سیانے بیانے ‘‘ ( سمجھدار اورتجربہ کار) سیاستدانوں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی ’’ چھتر چھایا‘‘ میں بٹھا دِیا ہے ۔ ایک پنجابی لوک گیت میں ایک خاتون نے لال پگڑی ( سوہے چِیرے ) والے نوجوان کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ … 

سُوہے وَے چِیرے والیا مَیں کہنی آں!

کر ،چھتری دِی چھاں مَیں چھاویں بہنی آں!

لیکن میرا خیال ہے کہ ’’ پنجاب کے ( جس میں جنوبی پنجاب بھی شامل ہے ) مسائل اتنے زیادہ رہے ہیں کہ اب پنجاب کے تینوں بڑے ؔمسائل زدہ عوام کو بھلائی کے لئے سُکھ کی چھتری تو کرنے کی پوزیشن میں تو ضرور ہوں گے لیکن اُنہیں خُود بہت کم آرام ملے گا ؟ ۔ وزیراعظم عمران خا ن نے خُود 16 گھنٹے کام کرنے کا اعلان کِیا ہے اور وفاقی کابینہ کے ارکان سے بھی کہہ دِیا کہ ’’ آپ میں سے ہر کوئی 14 گھنٹے کام کرے گا ! ‘‘۔ اُدھر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اعلان کردِیا ہے کہ ’’ مَیں تو 18 گھنٹے کام کِیا کروں گا ‘‘۔ شیخ صاحب کے لئے آسانی ہے کہ ’’ وہ جب بھی بذریعہ ریل ملتان یا فیصل آباد (لائل پور) کا دورہ کریں گے تو اُن دونوں شہروں میں اُنہیں ’’گھنٹہ گھر ‘‘ (Clock Tower) دیکھنے کی سہولت حاصل ہوگی؟۔

چودھری محمد سرور !

معزز قارئین!پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جَم پَل ۔ پھر 35 سال تک برطانوی شہری اور مسلسل تین بار ( 1999ء ۔ 2013ء تک ) سکاٹ لینڈ کے شہر "Glasgow" سے " House of Commons" کے منتخب رُکن رہے ، پھر وزیراعظم نواز شریف کی فرمائش پر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان واپس آگئے اور اُن کی فرمائش پر 5 اگست 2013ء کو گورنر پنجاب کا منصب سنبھال لِیا لیکن 29 جنوری 2015ء کو مستعفی ہوگئے۔ دراصل نہ صِرف وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف بلکہ خُود کو "Deputy Chief Minister"سمجھنے والے حمزہ شہباز بھی ، گورنر چودھری محمد سرور کے کاموں میں خُود ’’ کیڑے ‘‘ ڈال کر اُنہیں نکالتے رہتے تھے ۔ اپنی گورنر شِپ کے دَوران چودھری محمد سرور نے دو اہم کام کئے جواِس سے پہلے کسی بھی صوبے کے گورنر نے بھی نہیں کئے۔ اُنہوں نے اندرون اور بیرون ملک کے ’’ فرزندانِ پاکستان و دُخترانِ پاکستان ‘‘ کی مالی معاونت سے چاروں صوبوں میں "Water Filtration Plants"  کی تنصیب کرائی۔ 

چودھری محمد سرور کا دوسرا کارنامہ یہ تھا / ہے کہ ’’ اُنہوں نے اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے یورپی یونین سے پاکستان کو "G.S.P Status" دِلوایا ۔ اِس طرح پاکستانی مصنوعات کی درآمدات کا حجم 13 بلین ڈالر سے 26 بلین ڈالرہوگا اور 10 لاکھ پاکستانیوں کے روزگار کے مواقع پیدا ہُوئے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے تعلیم "Mr. Gordon Brown" سے ذاتی دوستی کی بناء پر چودھری محمد سرور نے پاکستان کی تعلیم و ترقی کے لئے یورپی یونین سے 10 کروڑ ، امریکہ سے 14 کروڑ اور اقوام متحدہ سے 15 لاکھ ڈالر کی امداد حاصل کی۔ حیرت ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کا کوئی بھی رُکن اِس طرح کا کام کرانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ 

معزز قارئین!۔ ستمبر 1981ء میں مَیں پہلی مرتبہ برطانیہ کے ڈیڑھ ماہ کے سرکاری دورے پر گیا تو مجھے وہاں کے ایک آدم ؔگیر ’’بابائے گلاسگو ‘‘ ( کئی سال سے ’’ بابائے امن‘‘ ) ملک غلام رباؔنی نے اپنی محبت کا اسیر بنا لیا تھا۔ اُنہوں نے ہی مجھے ہلی مرتبہ چودھری محمد سرور سے ملوایا تھا ۔ چودھری صاحب اُن دِنوں صِرف بزنس مین تھے ۔ اُن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ’’ وہ ہر پاکستانی نژاد بے روزگار نوجوان کو پانچ ہزار روپے برطانوی "Pounds" بطور ’’ قرض حسنہ‘‘ دے دیتے تھے ، اِس شرط پر کہ ’’ جب تم یہ قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں ہو جائو تو تُم کسی اور بے روزگار شخص کو یہ پانچ ہزار پائونڈ بطور ’’قرض حسنہ‘‘ دے دینا‘‘۔ مَیں جب بھی اپنے تین بیٹوں کے ساتھ برطانیہ میں چھٹیاں گزارنے جاتا ہُوں تو میرا دورہ گلاسگو بہت ضروری ہوتا ہے! ۔ 

گلاسگو میں ہر سال مئی کے مہینے میں ’’ جشن ِ گلاسگو‘‘ منایا جاتا ہے ۔ 2006ء کے جشن گلاسگو کے لئے ’’ چیئرپرسن بزم شعر و نغمہ‘‘ محترمہ راحت ؔزاہد اور چیئرمین گلاسگو انٹر کلچرل آرٹس گروپ شیخ محمد اشرف ؔکی فرمائش پر مَیں نے ایک ترانہ لکھا تھا ، جو کراچی اور لاہور کے کئی گلوکاروں نے مل کر گایاتھا ۔ ترانے کے تین شعر یوں ہیں ……

سب سے نِرالا سب سے جُدا ہے!

شہر گلاسگو شہر وفا ہے!

…O…

امن و سکوں کا سفینہ جیسے!

لوگ ہیں  اہل ِ مدینہ جیسے!

…O…

جدوجہد کی اَمر کہانی!

 بابائے اؔمن غلام ربانی!

چودھری پرویز الٰہی 

معزز قارئین!۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب ، سابق سپیکر پنجاب اسمبلی اور سابق ڈپٹی پرائم منسٹر آف پاکستان چودھری پرویز الٰہی بھی ہمارے ملک کا ’’اثاثہ ‘‘ (Asset) ہیں ۔ اُنہیں اور اُن کی سیاست کا مشاہدہ کرتے ہُوئے مجھے 1789ء کے ِ انقلاب ِؔفرانس کا ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے‘‘ ۔ انقلاب کے بعد کسی دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا کہ ’’ تُم نے انقلابِ ؔفرانس میں کیا کارنامہ انجام دِیا ؟‘‘ ۔ دوسرے نے مسکراتے ہُوئے کہا کہ ’’ کیا یہ میرا کارنامہ کم ہے کہ مَیں زندہ بچ گیا؟‘‘۔ ماشاء اللہ !۔ مَیں نے ہر دَورمیں چودھری پرویز الٰہی اور اُن کے بردارِ بزرگ چودھری شجاعت حسین کو زندہ و جاوید دیکھا ہے ۔ دسمبر 2004ء کی بھارتی شہر پٹیالہ میں منعقدہ ’’عالمی پنجاب کانفرنس‘‘ میں مَیں بھی وزیراعلیٰ پاک پنجاب ، چودھری پرویز الٰہی کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا۔ 

2 دسمبر 2004ء پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے سائنس آڈیٹوریم میں سٹیج پر بھارت کے صحافی ، دانشور اور شاعروں کے ساتھ مَیں بھی بیٹھا تھا ۔ "Penal Discussion" کا موضوع تھا ۔ 'Role of Media and Cooperation Between the Two Punjabs" ۔ بھارت کی طرف سے جناب کلدیب نیئر ( جو تین دِن پہلے آنجہانی ہوگئے) روزنامہ ’’ اجیت‘‘ کے سابق ایڈیٹر اور سینئر صحافی سردار گلزار سنگھ سدھو ، روزنامہ ’’ ہندوستان ٹائمز‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کنور سندھو اور جگجیت سنگھ آنند اور پاکستان کی طرف سے جناب منو بھائی (مرحوم) جناب جاوید اقبال  کارٹونسٹ، محترمہ افضل توصیف اور کانگریس کے چیئرمین جناب فخر زمان تھے ۔ 

بھارتی پنجاب کے دانشوروں ، شاعروں اور صحافیوں نے ’’سانجھا پنجاب ‘‘ کی بات کی ( پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب کی سرحد کو مٹانے کی بات ) ۔ مَیں نے اپنی تقریر میں مُنہ پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا کہ ’’ پاک پنجاب تے بھارتی پنجاب دِی لکِیر وِچ میرے 26 بزرگاں دا لہو شامل اے۔ مَیں ایس لکیر نُوں کدے وِی نئیں مِٹن دیاں گا!‘‘۔ اُس پر بڑا شورو غوغا ہُوا لیکن، مَیں تو سرکاری مہمان تھا ، میرا کوئی کیا کرسکتا تھا ؟۔ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن (ر) امریندر سنگھ کی اہلیہ ۔ مہارانی پٹیالہ کی طرف سے پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب کے مہمانوں کے اعزاز میں "Grand Dinner" کا اہتمام تھا ۔وہاں چودھری پرویز الٰہی نے مجھے شاباش دِی۔ 

معزز قارئین! چودھری پرویز الٰہی کے دورہ ٔ بھارتی پنجاب پر کئی بار کیپٹن امریندر سنگھ نے ’’ سانجھے پنجاب‘‘ کی بات کی ، لیکن چودھری پرویز الٰہی نے ہر موقع پر یہی کہا کہ۔ ’’ زبان اور کلچر کی بنیاد پر سرحدیں ختم نہیں کی جا سکتیں ۔ کئی مسلمان ملکوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں ۔ اُن کی زبان اور کلچر بھی ایک ہے ۔ حتیٰ کہ مذہب بھی ، لیکن اُن کی سرحدیں اپنی اپنی ہے ۔ ہم اپنی اپنی سرحدیں قائم رکھتے ہُوئے پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب کے بھائی چارے کی طرف قدم بڑھائیں گے !۔