سات سو پاکستانیوں کا نام پنڈورا پیپر لیکس میں ہونا واقعی ایک لمحہ فکریہ ہے تاہم وزیراعظم نے اس کا خیر مقدم کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اس کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ اس لسٹ میں وزیراعظم کے چند قریبی رفقا کا نام بھی شامل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے تحقیقات انہی لوگوں سے شروع کی جائیں اور یہ تحقیقات اتنے شفاف طریقے سے کی جائیں کہ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ پنڈورا پیپرز کے شائع ہونے سے پہلے سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ وزیراعظم عمران خان کا نام بھی اس میں شامل ہے۔ اپوزیشن کے بہت سے لیڈروں نے عمران خان سے استعفیٰ دینے کے مطالبات بھی شروع کردیئے۔ جب عمران خان کا نام پنڈورا پیپرز میں نہیں ملا تو بعض سیاستدانوں کو بڑی مایوسی ہوئی اور ان پیپرز کے بارے میں عمومی جوش و خروش کافی کم ہوگیا۔ اس لیے بھی جوش و خروش کافی کم ہو گیا کہ اس سے پہلے دو تین لیکس آ چکی ہیں اور سابق وزیراعظم کے علاوہ کسی بھی شخص کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں ہو سکی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ اس میں کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ حق بھی کسی کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جس کی چاہے پگڑی اچھال دے۔ اسی لیے پاکستان میں غلط خبر دینے کے بارے میں سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ فی الحال تو پاکستان میں الزام لگانا سب سے آسان کام ہے کیونکہ اس کی آج تک کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ اسی لیے پاکستان کی صحافت میں بھی کافی کالی بھیڑیں موجود ہیں اور ان کا اصل پیشہ صحافت نہیں بلکہ لوگوں کو بلیک میل کرنا ہے۔ جن سرکاری افسروں کا نام اس لسٹ میں شامل ہے ان کے لیے بے لاگ تحقیقات کی ضرورت ہے اور اگر جرم ثابت ہو جائے تو انہیں عام لوگوں کی نسبت زیادہ سزا دی جائے لیکن بعض الزامات بادی النظر میں بالکل ہی غلط نظر آتے ہیں۔ سب سے دلچسپ الزام میجر ریٹائرڈ نادر پرویز پر ہے کہ ان کی آف شور کمپنی بھارت کے ساتھ کاروبار کرتی ہے اور اربوں روپے کا لین دین ہے اس الزام میں میجر نادر پرویز کا نام لیفٹیننٹ کرنل نادر پرویز لکھا گیا ہے جس تحقیق کرنے والے نا م نہاد صحافی کو ان کے عہدے کا پتہ نہیں چل سکا وہ خاک تحقیق کرے گا۔ میجر نادر پرویز کوئی غیر معروف فوجی افسر نہیں ہیں، آج سے 46 سال پہلے جب میں نے فوج میں شمولیت اختیار کی تو میجر نادر پرویز جیسے افسر ہمارے ہیرو تھے۔ میجر نادر پرویز نے اپنے مختصر کیریئر میں تین جنگوں میں حصہ لیا اور دو بار ستارہ جرات کے حقدار ٹھہرے۔ وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے بڑے دبنگ افسر تھے اور اپنی بہادری اور دلیری کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے، جب وہ بھارت میں جنگی قیدی بنے تو کچھ عرصے بعد اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ سرنگ کھود کر بھارت کی قید سے فرار ہوئے اور کامیابی سے پاکستان پہنچے۔ جب ان کی ملاقات پاکستان کے آرمی چیف سے ہوئی تو آرمی چیف نے کہا: Nadir, I expected you to come bak much earlier. یہ تھی ان کی عمومی شہرت۔ وہ بلاوجہ نوجوان افسروں کا آئیڈیل نہیں تھے۔ آج وہ اپنی ذات پر اس گھنائونے الزام کی وجہ سے دل شکست اور مضطرب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ بھارت سے کاروبار کا سوچ بھی سکیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک نہیں ہیں اور انہوں نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ ان کی کمپنی کی تحقیقات سب سے پہلے کی جائیں۔ اگر وہ قصور وار ثابت ہوں تو انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور اگر یہ الزام بے بنیاد ثابت ہو تو الزام لگانے والوں کو کڑی سزا دی جائے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 1985ء کے بعد ان کے اثاثوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور ان کی ملکیت میں ان کے موروثی اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ دوسرا دلچسپ کیس جنرل علی قلی خان کی ہمشیرہ کا ہے۔ جنرل علی قلی خان کو ریٹائر ہوئے ایک مدت گزر چکی ہے۔ ان کی ہمشیرہ ایک ایسے خاندان کا حصہ بنیں جو نسل در نسل انڈسٹریلسٹ ہیں۔ بہتر ہوتا کہ ان کا نام اپنے خاوند کے نام سے جوڑا جاتا نہ کہ ایک ماضی بعید میں ریٹائر ہونے والے نیک نام جنرل کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی۔ وزیراعظم کی تحقیقاتی کمیٹی کو نہایت تیزی سے اپنی کارروائی شروع کرنی چاہیے اور سب سے پہلے فوجی افسران اور وزیراعظم کے ساتھیوں کے کیسز کی تحقیق کرنی چاہیے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ اگر یہ الزامات غلط ثابت ہوں تو الزامات لگانے والوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی الزامات لگاتے وقت احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ محترمہ مریم نواز نے جس طرح اپنی پریس بریفنگ میں جنرل صاحبان کے نام لے لے کر الزامات لگائے ہیں، وہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور اس سے کوئی خیر برآمد ہونے کی توقع نہیں ہے۔ وہ خود اپنی پارٹی کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں کیونکہ یہ قوم اپنی فوج سے محبت کرنے والی قوم ہے اور فوج کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتی۔ مریم نواز کے لگائے ہوئے الزامات تو ثبوت کے متقاضی ہیں لیکن جس طرح ان کے چچا حضور نے ان کے والد کا پیغام متعلقہ جج کو دیا تھا کہ وہ آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کو کتنی سزا دلوانے کے خواشہمند ہیں، ساری دنیا پر ثابت ہو چکا ہے۔ اس ٹیلیفون کال کی پاداش میں ہائیکورٹ کے جج قیوم ملک کوبھی مستعفی ہونا پڑا تھا۔ مریم نواز نے آج تک اپنے ٹی وی انٹرویو کی بھی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ انہیں صرف وہ عدالتیں اور جج پسند ہیں جو ان کے حق میں فیصلے دیں۔ جس طرح انہوں نے معزز ریٹائرڈ ججز کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے وہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اپنے لیے اور قانون ہے اور دوسروں کے لیے اور قانون ہے، جس طرح مریم نواز نے اپنے ترجمان کے ویڈیو سکینڈل کو نظر انداز کر کے انہیں اپنے منصب پر قائم رکھا ہے ان کے لیے کوئی نیک نامی کا سبب نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت انصاف کی دعوے دار ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ بڑے لوگوں کو قانون کے نیچے نہ لایا جائے۔ اگر مفتی عزیزالرحمن آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اپنا مقدمہ بھگت رہے ہیں ،تو کیا وجہ ہے کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا گیا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی قدروں پر استوار ہو تو ہمیں قانون کا نفاذ سب کے لیے کرنا پڑے گا۔ تحریک انصاف کے اپنے نمائندے بھی سکینڈلز کی زد میں ہیں۔ سب کے لیے قانون کا یکساں نفاذ حکومت اور تحریک نفاذ کے لیے نیک نامی کا سبب بنے گا اور پاکستان کو پاک کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔