اگست 2021 میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے پاک ۔افغان تعلقات غیر متوقع طور پر سردمہری اور پھر بتدریج کشیدگی کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ اس کشیدگی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ کاروائیاں بھی ہیں جن کے تربیتی مراکز افغانستان میں ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان نے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے طالبان کی افغان حکومت سے تعا ون کی بات کی تو افغان طالبان نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ کہتے ہوئے لاتعلقی اختیار کرلی جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑگہری ہو گئی ہے۔۔اس دوران یہ بھی آشکار ہواکہ پاکستان میں مقیم کچھ افغان بھی ان کاروائیوں میں تحریک طالبان پاکستان کے آلہ ء کار بنے ہوئے ہیں۔ داخلی سلامتی کی اس پیچیدہ صورتحال میں نگراں حکومت نے پاکستان میںغیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کے انخلاء کا ایک اہم فیصلہ کیا ۔ یہ فیصلہ ملک کے وسیع تر مفادات کا حامل ہے۔ اس کے اطلاق میں اگرچہ غیر معمولی تاخیر اور غفلت روا رکھی گئی تاہم دیر سے ہی سہی اس فیصلے کا کیا جانا بہت ضروری تھا۔غیرقانونی رہائش رکھنے والوںمیں بنگالی ،برمی اور افغان سب ہی شامل ہیں تاہم ان میں افغان کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر بھی یہی ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد چالیس لاکھ سے بھی متجاوز ہے ان میں سے 52.6 فیصد خیبر پختون خوا ، 24.1 فیصد بلوچستان ،14.3 فیصد پنجاب ، 5.5 فیصد سندھ ،3.1 فیصد اسلام آباد اور0.3 فیصد آزاد کشمیر میں ہیں۔ان افغان مہاجرین میں چودہ لاکھ کے پاس اس حیثیت میں رجسٹریشن موجود ہے ۔ آٹھ لاکھ سے زائد افغان سٹیزن کارڈ کے ساتھ موجود ہیں جب کہ باقی ( تقریبا ا ٹھارہ لاکھ ) غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں ۔ موجودہ نگران حکومت نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے باعث یہ اہم اور ضروری فیصلہ کیا کہ غیر قانونی طور پر مقیم تمام باشندوں کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو انہیں ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔ یہ درست ہے کہ اس فیصلے سے سب سے زیادہ افغان مہاجرین متاثر ہورہے ہیں اور اس فیصلے سے ان کے لئے شدید مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں ۔ یہ بات تو ایک معلوم حقیقت تھی کہ روسی مداخلت کے بعد سے جو حالات افغانستان میں پیدا ہوئے اور ایک بڑی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے تھے انہیں واپس بھی جانا ہے۔ لہذا افغان حکومت کو اب ان کی اپنے وطن واپسی کو خوشدلی سے قبول کرتے ہوئے ان کی بحالی کے لئے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ایک طویل مدت تک پاکستان نے ان افغان مہاجرین کی پذیرائی کی ہے اب جب کہ افغانستان جنگی کیفیت سے باہر آچکا ہے تو ان کی اپنے وطن واپسی میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیئے۔افغان حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہے اور اس معاملہ پر کشیدگی افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو مشکل بنا دے گی اس سے گریز بہت ضروری ہے۔ 1979ء میں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعدلاکھوں کی تعداد میں افغان شہریوں نے پاکستان میں پناہ لی حکومت کی جانب سے افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو خوش آمدید کہا گیااور اسلامی اخوت کا ( کسی قدر غیر ضروری ) مظاہرہ کیا۔ چونکہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی کوئی واضح حکمت عملی نہیں تھی جس کے نتیجے میں وہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں آباد ہوتے چلے گئے۔ جس سے اب ان افغان مہاجرین کی واپسی ایک مشکل مرحلہ بن چکی ہے۔ ایران میں بھی افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد داخل ہوئی تھی مگر ایران نے اپنی داخلی سلامتی سماجی اور معاشی حکمت عملی کے تحت انہیں مخصوص جگہوں اور کیمپوں تک محدود رکھا جس کے باعث اول تو وہ ایرانی سماج کا حصہ نہیں بن سکے تو دوسری طرف انہیں ان کے ملک افغانستان واپس بھیجنا آسان رہا ۔ اس کے بر عکس پاکستان نے افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں پورے ملک میں راہداری کی ،رہائش کی ، کاروبار کی اور جا ئیداد خریدنے کی بھی مکمل آزادی دی گئی۔ جس کے باعث وہ پوری طرح پاکستان کے معاشرے میں رچ بس گئے۔ انہوں نے غیر قانونی ذرائع کی مدد سے پاکستانی شناختی کارڈا ورپاکستانی پاسپورٹ تک حاصل کرلئے اور اس اس بنیاد پر وہ بیرون ممالک بھی جاتے رہے۔ایک خبر کے مطابق لاکھوں افغان مہاجرین کا وٹر لسٹ میں بھی اندراج ہے جو آنے والے انتخابات میں اثر انداز ہو نے کی طاقت رکھتے ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی سیاسی مفادات کی خاطر افغان مہاجرین کی آمد کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔اور اب وہ اس سلسلے میں حکومت کی انخلا کے عمل کو تنقید کانشانہ بنا رہے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے باعث پاکستان میں جرائم کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق محض کراچی میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے جو شہر کے کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ان میں سے بیشتر بعض سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ پاکستان میں موجود تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں بشمول افغان باشندو ںکو ان کے ملکوں کو واپس بھیجا جائے ۔اس مرحلہ پر اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات متاثر نہ ہوں۔ بہتر ہوتا کہ اس فیصلے کے اطلاق سے قبل افغانستان کی طالبان حکومت سے بات کرلی جاتی اور اس ضمن میں موجود مشکلات اور مسائل کو پیش نظر رکھ کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جاتی اس طرح اس فیصلے سے جو کشیدگی سامنے آرہی ہے اس سے بچا جاسکتا تھا۔پاکستاان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اس کی مغربی سرحد پر کشیدگی ہو۔ عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے رجحانات اور علاقائی مفادات کے تحفظ کے پیش نظر ضروری ہے کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے ساتھ ساتھ اس کی مشرقی اور مغربی سرحدات محفوظ ہوں ۔ پاکستان کی معیشت اور سیاسی صورتحال افغانستان کے ساتھ کشیدہ حالات کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔اس ضمن میں پاکستان کے فیصلہ سازوں کو دو چار قدم آگے بھی جانا پڑے تو اس سے گریز نہیں کیا جانا چاہیئے بعینہہ یہ بات پاکستان کے لئے جس قدر اہم اور ضروری ہے افغانستان کے لئے بھی اسی قدر اہم ہے ۔اس کی تجارت اور معیشت کا بڑا دارومدار اس راہداری سہولت پر ہی ہے جو اسے پاکستان نے فراہم کی ہوئی ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ اس انخلا کے عمل سے جڑے سیاسی اور انتظامی ذمہ داران کا طرزعمل لازمی طور پر ہمدردانہ ، دوستانہ اور باوقار ہونا چاہیئے اور ایسے بیانات اور فیصلوں سے گریز کیا جائے جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میںمزید خرابی پیدا ہو ۔ اس ضمن میں پاکستان کے لئے خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور پیچیدہ عالمی سیاسی معاملات کا جبر بہت اہم ہے جسے اس موقع پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔