اسلام آباد(خبر نگار)سپریم کورٹ نے پیراگون ہائوسنگ سوسائٹی سکینڈل کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور انکے بھائی سابق صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے دونوں کو تیس تیس لاکھ روپیہ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنیکا حکم دیدیا جبکہ قراردیا کہ خواجہ برادران کو حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اکائونٹس میں پیسے آئے تو غیرقانونی کیا ہے ؟ ۔گزشتہ روزجسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ صادر کرتے ہوئے ضمانت کی درخواستیں مسترد کرنے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دونوں ملزموں کی اپیلیں منظور کیں اور قرار دیا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا۔دوران سماعت عدالت نے قومی احتساب بیورو(نیب )کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ نیب کی یا تو نیت خراب ہے یا اہلیت کا فقدان ہے ، دونوں ہی صورتحال میں معاملہ انتہائی سنگین ہے ۔جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون کا مذاق نہ اڑائے ،ضمانت کی درخواستیں خارج کرانے کیلئے ٹھوس مواد دیا جائے ،نیب بتائے تحصیل میونسپل اتھارٹی(ٹی ایم اے )نے 2005میں جس منصوبے کی منظوری دی اسکی خلاف ورزی کہاں پر ہوئی؟۔ نیب کے پاس ضمانت خارج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں،ریفرنس میں شاملات کی زمین منصوبے میں شامل کرنیکا الزام ہی نہیں لگایا۔ جب ٹرائل میں تاخیر ملزموں کی وجہ سے نہیں ،وہ ٹرائل میں رخنہ نہیں ڈال رہے اور مکمل تعاو ن کررہے ہیں تو پھر ضمانت کی مخالفت کا مقصد کیا ہے ؟، جب زمین ٹی ایم اے کی حدود میں ہے اور ٹی ایم اے نے منصوبے کی اجازت دی تو پھر لاقانونیت کیا ہوئی ؟۔جسٹس مظہر عالم خان نے کہا کہ نیب بتائے کہ ملزموں پر الزام کیا ہے اور ان سے شکایت کیا ہے ؟۔ نیب کے وکیل نے ضمانت کی مخالفت کی اور کہا کہ ملزموں پر انتالیس کینال شاملات کی زمین پلان میں شامل کرنیکا الزام ہے ،خواجہ برادران نے پیسے لئے ،رقم انکے کائونٹس میں آئی ،ٹرائل جاری ہے ملزمان کو رہا نہ کیا جائے بلکہ ٹرائل کورٹ کو ٹرائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی جائے ۔ جس پرجسٹس مقبول باقر نے کہا کہ نیب نے شاملات کی زمین کے پلان میں خلاف ورزی کا الزام نہیں لگایا۔خواجہ برادارن کے اکائونٹس میں پیسے آئے ہیں تو اس میں غیرقانونی کیا ہے ؟،وہ تو مان رہے ہیں کہ پیسے آئے ہیں،اگر کوئی غیرقانونی کام ہوا ہے تو نیب دکھائے ۔ نیب وکیل نے موقف اپنایا کہ بیان ریکارڈ کے بعد خواجہ برادران جیل میں نہیں تھے ۔ جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ یہ کیسی بات کر رہے ہیں بھروانا صاحب، ضمانت پر تو نہیں تھے ۔جسٹس مقبول باقر نے کہا احتیاط کرے ایسا کوئی بیان نہ دے جس سے نیب کی ساکھ کو نقصان ہو، نیب کے پاس ابھی بھی کوئی واضح شواہد موجود نہیں ، جب پلان کی منظوری ٹی ایم اے نے دی تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا، جس کی وجہ سے اب خواجہ برادران کو حراست میں رکھا جائے ۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ضمانت منظور کرلی۔