کون کہتا ہے کہ لوگ اُٹھ کھڑے ہوں تو انہیں حکومتی طاقتیں کچل کر رکھ دیتی ہیں۔ تاریخ اس کے بالکل برعکس کہانی سناتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب لوگ اُٹھ کھڑے ہوں تو 21 جنوری 1793ء کو پیرس شہر میں عوام کا ہجوم بادشاہ کو کھینچتا ہوا شہر کے بیچوں بیچ لگے اس گیلوٹن (Guillotine) کے پاس لاتا ہے۔ اس کا سر ایک پتھر پر رکھ دیا جاتا ہے، بلندی سے ایک بہت بڑا چھرا لہراتا ہوا آتا ہے، گردن پر گرتا ہے، خون کے چھینٹے اُڑتے ہیں اور بادشاہ کا سر ہجوم میں لوگوں کے پائوں کی ٹھوکر میں ہوتا ہے۔ ایک مفلوک الحال شخص اسکے خون میں انگلی ڈبو کر اس کا ذائقہ زبان سے چکھتا ہے اور زور سے پکارتا ہے، اوہ! دیکھو بادشاہ کا خون بھی نمکین ہے۔ اس کا بڑی بڑی مونچھوں والا وزیر داخلہ ’’روہان‘‘ (Rohan) پیرس میں احتجاج کرتے لوگوں کا تمسخر اُڑایا کرتا تھا، لوگ بھوک سے تڑپتے تھے تو کہتا تھا، شہر میں کتنی گھاس اُگی ہے، جائو گھاس کھائو۔ اس کو جب پکڑ کر گیلوٹن پر لایا گیا تو پہلے اس کے منہ میں گھاس بھری گئی، پھر اس کی گردن اُڑا دی گئی۔ یہ تو دو سو سال پرانی کہانی ہے، لیکن صرف 44 سال قبل اپریل 1978ء میں، ایک بادشاہ نے تہران کی ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انتہائی متکبرانہ انداز میں کہا تھا کہ اب ایران میں کسی قسم کے انقلاب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میرے ساتھ سات لاکھ چاک و چوبند فوج ہے، خفیہ ایجنسی ’’ساواک‘‘ ہے جو ہر قسم کے شرپسند کو زمین کا رزق بنا سکتی ہے اور میں نے عوام کو خوشحال کیا ہے، میرے تحت ایک جمہوری وزیر اعظم امیر عباس ہویدا اور اس کی کابینہ کام کر رہی ہے۔ جس لمحے وہ یہ تقریر کر رہا تھا، تہران یونیورسٹی سے چند سو طلبہ کا جلوس ’’مرگ بر شاہ‘‘ اور ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کہتا ہوا سڑکوں پر رواں تھا جس کے ٹھیک ایک سال بعد شاہ ایران تو فرار ہو گیا مگر امیر عباس ہویدا سمیت وہ تمام جرنیل جو یہ دعوے کیا کرتے تھے کہ ہم تہران میں کسی پرندے کو پَر نہیں مارنے دیں گے، ان کی لاشیں سرد خانوں میں پڑی تھیں۔ ایران کے انقلاب سے کسی اور نے شاید کوئی سبق سیکھا ہو یا نہ ہو، امریکی حکام اور امریکی پالیسی سازوں نے ضرور سبق سیکھا ہے۔ امریکی ایران کی طرح دنیا کے بیس کے قریب ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں وہاں کی افواج کی مدد سے قائم کئے ہوئے تھے۔ لاطینی امریکہ کے ممالک تو یوں لگتا تھا ان کی کالونیاں ہیں۔ ایران کے بارے میں بھی ان کا یہی زعم تھا کہ ہم نے فوج اور اشرافیہ کے ذریعے یہاں پر ہر انقلابی آواز کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ شاہ ایران کی 1978ء کی ملٹری اکیڈمی والی تقریر کے پیچھے بھی امریکی سی آئی اے سمیت پندرہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں تھیں جن میں لکھا تھا کہ ایران اب ایک ایسے مرنجاں مرنج تعیش پرست معاشرے میں ڈھل گیا ہے کہ جہاں انقلاب کی سوچ کا پنپنا بہت مشکل ہے۔ آیت اللہ خمینی کا بیانیہ بھی صرف شاہ کے خلاف نہیں تھا بلکہ ’’شیطان بزرگ‘‘ امریکہ کے خلاف تھا اور لوگوں نے اسے دل سے قبول کر لیا تھا کیونکہ عوام 1953ء سے امریکی مداخلت کے گواہ تھے جب مقبول وزیر اعظم مصدق کو امریکیوں نے ’’رجیم چینج‘‘ کے نام پر معزول کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابیوں نے شاہ کے محل پر بعد میں قبضہ کیا، پہلے امریکی ایمبیسی پر قبضہ کر کے 50 سفارت کاروں کو یرغمال بنایا اور یہ قبضہ 444 دن تک چلتا رہا۔ جنوری 2022ء کے آغاز میں امریکہ سمیت پاکستان کی اہم خفیہ ایجنسیوں نے یہ رپورٹیں مرتب کیں کہ اگر عمران خان کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو پی ٹی آئی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی اور عمران خان عوام میں اپنی شکل دکھانے کے بھی قابل نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان میں امریکہ کا سابق سفیر کیمرون منٹر (Cameron Muntor) کہہ چکا تھا کہ اب پاکستان ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ چین سے مقابلے کے لئے اب ہمارا میدانِ جنگ واہگہ سے سڈنی تک ہے۔ لیکن فروری میں روس کے یوکرین پر حملے نے سارا عالمی سین بدل کر رکھ دیا۔ اب امریکی چاہتے تھے کہ پاکستان میں ضیاء الحق اور مشرف جیسی وفادار حکومت ہو جسے ہم خطے میں ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر سکیں۔ یوکرین میں وفاداریاں خرید کر حکومت بدلنے کا کامیاب تجربہ ہو چکا تھا۔ اسی طرز پر نو اپریل 2022ء کو رات بارہ بجے کے قریب عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی، لیکن دس اپریل نے امریکہ سمیت سب کو چونکا دیا۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ میں ایسا اچانک ردّعمل کبھی نہیں دیکھا گیا تھا کہ دو سو سے زیادہ شہروں میں لوگ ازخود باہر نکل آئے ہوں اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پاکستانی رہتے ہوں، سراپا احتجاج بن جائیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اسے ایک وقتی اُبال سمجھی، لیکن امریکیوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آیت اللہ خمینی کا شیطانِ بزرگ اور مرگ بر امریکہ والا بیانیہ اب عمران خان کی وجہ سے یہاں مقبول ہو جائے گا۔ وہ اسے مزید خطرناک اس لئے بھی سمجھتے تھے کہ ایران میں تو تحریک آہستہ آہستہ پروان چڑھتی رہی مگر یہاں تو ایک دَم طوفان کھڑا ہو گیا تھا اور بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ امریکیوں نے ایران میں ناکامی کے بعد یہ سیکھ لیا تھا کہ اب صرف اسی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق بنانا ہے، جو عوام میں مقبول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چلّی کا ڈکٹیٹر جنرل پنوشے جو ان کی ملٹری اکیڈمی کا تربیت یافتہ تھا اور جسے انہوں نے 1973ء میں اپنی مدد سے حکومت پر بٹھایا تھا، پھر اسے جمہوری صدر بھی بنوا دیا تھا۔ لیکن جب عوام اس کے خلاف ہوئے تو امریکی پیچھے ہٹ گئے۔ اسے صدارتی الیکشن میں شکست ہوئی مگر وہ آرمی چیف کے عہدے پر رہا۔ لیکن جیسے ہی اس نے وردی اُتاری، اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے امریکہ کو مدد کے لئے پکارا لیکن امریکی تو اب اس کے ساتھ تھے جو چلّی کی عوام میں مقبول تھا۔ وہ صحت کی خرابی کا بہانہ بنا کر لندن چلا آیا۔ چلّی کی حکومت نے عالمی وارنٹ جاری کر دیئے اور امریکی جن کے لئے اس نے اپنے لاکھوں ہم وطنوں کا خون بہایا تھا، انہوں نے کان سے پکڑ کر اسے چلّی کی حکومت کے حوالے کر دیا۔ امریکیوں نے شاہ آف ایران، مارکوس اور پنوشے وغیرہ کی حکومتوں کے زوال کے بعد یہ طے کر لیا تھا کہ اب ہم اس اسٹیبلشمنٹ سے معاملات نہیں طے کریں گے جس کی عوام میں عزت و توقیر ختم ہو چکی ہو یا جو اپنے فیصلے عوامی مخالفت کی وجہ سے نافذ نہ کر سکے۔ امریکی دس اپریل سے اگست تک پانچ مہینے پاکستان میں اُبھرنے والی اس امریکہ مخالف تحریک کا جائزہ لیتے رہے۔ ان کے اخبارات نے تیسرے مہینے بعد ہی لکھنا شروع کر دیا تھا کہ امریکی پاکستان میں غلط گھوڑے پر سوار ہو چکے ہیں اور ملک میں اگر امریکہ سے نفرت کی یہی فضا قائم رہی تو پھر امریکہ افغانستان اور ایران سے تو پہلے نکل چکا ہے اب پورے خطے سے نکل جائے گا۔ اس خوف کے عالم میں امریکہ نے پاکستان کی حمایت کے لئے بدنام رابن رافیل کو پاکستان بھیجا جس نے یہاں صرف اور صرف عمران خان سے ملاقات کی۔ اس کی واپسی کے بعد ایسے لگتا ہے سب کچھ بدل چکا ہے۔ امریکہ میں قائم ’’پاکستان سٹڈی گروپ‘‘ کی رپورٹ اس ہفتے آئی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ امریکہ پاکستان میں رہنا چاہتا ہے، مگر وہ یہاں ہرگز ہرگز کسی غیر مقبول سیاسی لیڈر یا عوام سے کٹی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام نہیں کر سکتا۔ (اس رپورٹ پر کل تفصیلی بات ہو گی)