زندگی کا حسن یہ ہے کہ وہ چلتی رہتی ہے ۔لفظ حسن سے کسی کو غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا جمالیاتی ذوق سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ شرط محض و مطلق ہے جس کا بس ہونا ہی کافی ہے۔ جیسے مردوں کو عشق کے لئے عورت کافی ہے بس سانس لیتی ہو، خوبصورت ہو یا بدصورت یہ بعد کی بات ہے۔بعضے ناہنجار تو مردہ عورت پہ بھی عاشق ہوجاتے ہیں بلکہ اسے عین ثواب سمجھتے ہیں کیونکہ مردہ عورت گلے نہیں پڑتی، فرمائشیں نہیں کرتی اور شادی کا تقاضہ بھی نہیں کرتی۔ ایک مرد کو اور کیا چاہئے۔بعضے مزید ناہنجار عشق کے لئے عورت کا ہونا بھی ضروری خیال نہیں کرتے ۔ ایسے عشق پیشہ عشق میںذات پات تو دور کی بات جنس کی تفریق کے قائل بھی نہیں ہوتے۔ گویا عاشق ہونے کے لئے بس عشق کا ہونا شرط ہے۔ پہلی سطر میں بیان کئے گئے کلئے پہ اسے منطبق کیا جائے تو بیانیہ کچھ یوں بنتا ہے کہ عشق کا حسن یہ ہے کہ وہ ہوتا رہے۔مسلسل، بار بار اور ہربار۔بالکل اسی طرح جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ جمہوری عمل ہوتا رہے۔ یہاں بھی لفظ حسن سے کسی کو غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔جب کسی عمل کی شرط ہی اس کا حسن بن جائے تو سوچنا چاہئے کہ بات کہاں آن پہنچی ہے۔اب قصہ یوں ہے کہ ملک عزیز میں حسب منشا اور بچہ جمہوروں کی عین خواہش کے مطابق جمہوری عمل جاری ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اڈیالہ جیل کے مقیم نااہل و سزا یافتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تو گویا آج کلیجہ نکال کے ہتھیلی پہ دھر دیا۔خدا جانے زندان میں کس ملاقاتی نے انہیں یہ پٹی پڑھائی یا یہ خالص ان کی اپنی سوچ تھی۔ جیسے وہ شریر لڑکی جسے اس کی ماں نے سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم نے چھوٹی بہن کے بال کھینچ کر اچھا نہیں کیا۔ تمہیں یقینااس پہ شیطان نے اکسایا ہوگا۔ اس پہ وہ شریر بولی ۔ہوسکتا ہے لیکن اس کو لات جمانے کا خیال میرا اپنا تھا۔ ممکن ہے نواز شریف کو عین اس موقع پہ جب تحریک انصاف حکومت بنانے کے لئے اور متحدہ اپوزیشن حکومت نہ بنانے دینے کے لئے جوڑ توڑ کررہی ہیں،چھانگا مانگا کا ذکر کرنے پہ شیطان نے اکسایا ہو یا ممکن ہے یہ خیال ان کا اپنا ہو۔ ان سے ملنے والے آخری ملاقاتی تو ابصار عالم تھے۔ واللہ اعلم یا ابصار عالم۔ہمیں تو وہ دن یاد آگئے جب بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کو بالترتیب سوات اور چھانگا مانگا کے طعنے دیا کرتے تھے اور پورے شرح صدر کے ساتھ ہر بار جوڑ توڑ بلکہ خرید و فروخت کرکے حکومت بنا لیا کرتے تھے۔یہی جمہوریت کا حسن تھا اور جمہوری عمل سوات میں بھی جاری رہااور چھانگا مانگا میں بھی۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو پر تعیش پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوش ربا رنگینیوں کے ساتھ قید رکھنے میں کیا جمہوری قباحت تھی۔ کھلے عام بولیاں لگاکر اگر آزاد امیدوار خریدے گئے تھے تو اسے ہارس ٹریڈنگ جیسے توہین آمیز لفظ سے پکارنا کوئی جمہوری رویہ تو نہیں تھا۔اس وقت بھی میاں نواز شریف جو پنجاب کی وزارت اعلی کے دوران بیوروکریٹس اور ججوں کو بقول بے نظیر بھٹو ، چمک دکھاکر رام کرنے میں ماہر ہوچکے تھے فرمایا کرتے تھے کہ اپنے حامی آزاد امیدواروں کو آکر دوسری طرف کے شاطر بولی لگانے والوں سے محفوظ رکھنے کی غرض سے ایک محفوظ مقام پہ رکھ ہی لیا گیا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے۔یوں بھی پنجاب کی وزارت اعلی انہوں نے ایک جرنیل کی ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کے موقع پہ برمحل حمایت سے ہی تو حاصل کی تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب جنرل ضیا الحق نے انہیں اپنی عمر لگنے کی دعا دی تھی۔ کاش وہ ان کی ہدایت کی دعا بھی کرتے کیونکہ جنرل موصوف کی مستجاب الدعوات ہونے میں یوں شبہ نہیں کہ ان کی دعا چند ماہ بعد ہی قبول ہوگئی تھی۔بستی لال کمال میں سی ون تھرٹی فضا میں پھٹ گیا۔ جنرل ضیا الحق اپنے اعمال اور امریکی عمال کے ہمراہ بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوگئے جہاں ایک ایک عمل کا حساب ہوگا۔اس سے دوسال قبل 1986 ء میں جلا وطن بے نظیر بھٹو جب وطن واپس آئی تھیں تو بھٹو کی کشش سے اب بھی بندھے عوام کی بڑی تعداد نے ان کا فقید المثال استقبال کیا۔صاف معلوم ہوگیا کہ انتخابات ہوئے تو اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا اور یہ نواز شریف کو گوارا نہ تھا۔اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے ساتھ تھی کہ وہ اسی کے گملے میں اگے تھے۔عورت کی حکمرانی ویسے بھی حرام تھی۔اسی لئے آئی جے آئی بنی۔یہی شریعت کا تقاضہ تھا۔بے نظیر پھر بھی برسراقتدار آگئیں۔ انہیں اس وقت روکا جا ہی نہیں سکتا تھا۔ بے نظیر کی حکومت بننے کے بعد بھی یہ جوڑ توڑ اور خریدو فروخت جاری رہی۔محترمہ نے اپنی حکومت میں وزارت خزانہ اپنے پاس رکھی، وزیر بے عہدہ کا عجیب و غریب عہدہ اپنی والدہ محترمہ کو دیا اور اپنے سسر محترم حاکم علی زرداری کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین لگا دیا۔ان کی سوشلسٹ آئیڈیالوجی اتنی چابکدستی سے سرمایہ دارانہ ساسیت میں تبدیل ہوئی کہ وہ خود بھی حیران رہ گئیں۔ ممتاز بھٹو اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر پیپلز پارٹی چھوڑ گئے۔بے نظیر حکومت کے معاملات پہ مکمل طور پہ ان کے شوہر کا قبضہ رہا جو مسٹر ٹین پرسنٹ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ بے نظیر حکومت کی برطرفی میں ایک بظاہر وجہ آصف علی زرداری کی کرپشن بھی تھی۔ اس کے بعد نوے کے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف اور آئی جے آئی جس میں صالحین کی جماعت اسلامی بھی شامل تھی بے نظیر کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے گندہ کھیل کھیلا جس نے جمہوریت کے حسن میں چار چاند لگادئے۔ بریف کیس ادھر ادھر ہوئے،جونیجو، جماعت اسلامی، نواز شریف یعنی سارے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے۔فہرستیں تک جاری ہوگئیں کہ کس نے کتنے پیسے لئے۔ اصغر خان کیس آج بھی جمہوری عمل کے حسن پہ بدنما داغ بنا ہوا ہے۔یہ بھی بھلا کوئی بات تھی ۔جمہوری عمل تو جاری تھا۔ ایک جمہوری حکومت آئی دوسری گئی،اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت جاری رہی ۔کوئی آج اب کی بار دیانت دار کا نعرہ لگانے والی جماعت اسلامی سے پوچھے کہ 1993 ء میں نواز شریف نے نون لیگ میں شامل ہونے کے لئے اس کے کتنے ارکان کو کتنے میں خریدا کہ ایک ہاتھ سے خریدا اور شوری کو خبر نہ ہوئی۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ٹھیکے فروخت کئے جاتے رہے تا وقتیکہ مشرف نے آکر اس مقدس عمل میں کھنڈت نہ ڈال دی۔اس کے بعد مسلم لیگ کا فارورڈ بلاک بھی بنا۔2008 ء میں جب صدارتی انتخابات کی مہم عروج پہ تھی تو اسی قاف لیگ کی کاسہ لیسیاں دونوں بڑی پارٹیاں کرتی رہیں۔ آصف زرداری جسے قاتل لیگ کہتے تھے ان ہی کے ساتھ کھلے بندوں رابطے کرتے رہے، نواز شریف جنہیں غدار کہتے تھے بڑے فخر سے دونوں جماعتوں کے ادغام کا عزم ظاہر کرتے رہے۔کسی کو اصول یاد آئے نہ کسی نے کسی کو تھوک کر چاٹنے کا طعنہ دیا۔ اس کے بعد تو میثاق جمہوریت کا زریں دور آیا جب باری باری دو نوں بڑی جماعتوں نے عوام پہ سواری گانٹھی اور اس عمل کے دوران کی گئی خرمستیوں پہ آنکھ اور زبان بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مسٹر ٹین پرسنٹ سے زیادہ کون جانتا تھا کہ گھوڑوں کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں۔لکی مروت میں کس طرح اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ذریعے من پسند ٹھیکیداروں کو ایک ایک کروڑ میں بیس اور اسی فیصد کے تناسب سے ٹھیکے فروخت کئے گئے۔ ایک ایک سرکاری نلکا قومی خزانے کو کروڑوں میں پڑا۔۔ سرکاری نوکریوں کی خرید و فروخت تو معمول کی بات تھی لیکن اصل بات وہی تھی کہ جمہوری عمل جاری تھا، چاہے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہو یا سرمائے کی چمک سے۔ عوام کا استحقاق مجروح نہیں ہونا چاہئے چاہے حقوق غصب ہوتے رہیں۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک ایک سرپھرا درمیان آگیا۔ اس نے اعلان کیا کہ یہ ملی بھگت اب ختم ہونی چاہئے۔ اس کی بائیس سالہ جدو جہد نے یہ دن دکھایا کہ آج چھانگا مانگا کی سیاست کا موجد اعلی اپنی کرپشن کے نتیجے میں اڈیالہ میں بیٹھا جہانگیر ترین کو آزاد امیدوار وں کو گھیرلانے پہ اسی کا حوالہ دے رہا ہے حالانکہ اس میں کوئی قانونی یا آئینی قباحت نہیں ہے۔ اپوزیشن جو ایک دوسرے کو گھسیٹنے کے دعوے کرتی تھی آج ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی ہے۔شریعت کے باریش علمبردارجو کبھی ایک عورت کی حکمرانی کے خلاف اکھٹے ہوئے تھے آج لبرل خواتین کے جھرمٹ میں حکومت نہ بننے دینے کے عزم کا جہادی اعلان کررہے ہیں ۔اس عورت کے جاں نثار ان ہی سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔اس بھان متی کے کنبے کا ہدف صرف عمران خان ہے جو اتنا مطمئن ہے کہ اس نے اپوزیشن کے اس جمہوری عمل کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اتنی اخلاقی جرات تو اس کے مخالفین میں بھی ہونی چاہئے۔