وہ کیا ہے کہ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے۔ اور مجھے بھی ان دنوں دیواروں کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے البتہ ایسا نہیں لگتا کہ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے کہ ہم تو کب کے پاگل ہو چکے۔ ایک یونانی کہاوت میں کیا ہی سچائی ہے گویا آئندہ زمانوں کے حال بتاتی ہے اور کہاوت ہے کہ وہ جو اولمپس کی چوٹی پر مقیم متعدد خدا ہیں۔ جب وہ کسی قوم کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اسے پاگل کر دیتے ہیں۔ البتہ میں ان خدائوں کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتے ہوئے اپنی جانب سے ایک اضافہ کروں گا کہ پہلے اس قوم کے لیڈر وہ سیاسی لیڈر ہوں یا ڈھکے چھپے ‘ چھپ چھپ کے ڈوریاں کھینچنے والے، تگنی کا ناچ نچانے والے یا پھر دانشور‘ صحافی اور عقیدے کے پرچارک ہوں پہلے انہیں پاگل کیا جاتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں قوم پاگل ہو جاتی ہے اور پھر میںپاگل میرا منوا پاگل۔ پاگل میری پریت رے‘ گاتی پھرتی ہے اور حضور میں اتنا پاگل بھی نہیں کہ لیڈروں اور دانش وروں اور علماء کے نام گنواتا پھروں جو پاگل ہو چکے ہیں۔ اسیّ برس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود کسی لکڑی کی پیٹی یا تابوت میں بند نہیں ہونا چاہتا۔ چنانچہ میں اپنے ہونٹوں پر قُفل ڈال کر خاموشی کی رِدا اوڑھ لیتا ہوں۔ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں نہایت ڈھٹائی سے اعلان کرتا پھروں کہ جس روز صرف پانچ ججوں نے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ ججوں نے متفقہ طور پر مجھے نکالا ہے اس روز سے پاکستان کی ترقی کو گھن لگ گیا۔ ترقی پیچھے کی طرف دوڑنے لگی۔ ڈالر بھی اسی وجہ سے مہنگا ہو گیا یہاں تک کہ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا کی کرنسی ہم سے زیادہ طاقت ور ہو گئی۔ ملک میں جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا۔ جس روز مجھے نااہل قرار دیا گیا اس روز سے مرغیوں نے انڈے دینے بند کر دیے۔ بھینسیں کھانگڑ ہو گئیں۔ دودھ دینا بند کردیا۔ مینڈکوں نے ٹرانا موقوف کر دیا کہ جب تک وہ اہل نہیں ہو گا ہم نے ٹرانا ہی نہیں۔ گدھوں نے اپنی زندگی پر قدغن لگا دی، یہاں تک کہ اس روز کے بعد ملک میں جتنے بچے پیدا ہوئے وہ سب پیدا ہوتے ہی احتجاج کرنے لگے کہ مجھے کیوں پیدا کیا۔ مجھے کیوں پیدا کیا۔ یقین کیجیے میں ان کی آہ و زاری اور سینہ کوبی سے اتنا متاثر ہوں کہ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ خدا کے لیے اس بے چارے کی حالت پر رحم کیجیے پلیز کسی نہ کسی طرح اسے دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیجیے ورنہ یہ غریب تو تڑپ تڑپ کر ماہی ٔبے آب ہو جائے گا۔ خدا کے لیے اسے اہل کر دیجیے تاکہ ہماری مرغیاں پھر سے انڈے دینے لگیں۔ بھینسیں دودھ دینے لگیں اور گدھے پھر سے مصروف کار ہو جائیں۔ چنانچہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں وہ سب کچھ کہتا پھروں جو کہ میں نے فرط جذبات سے مغلوب ہو کر کہہ دیا ہے۔ ویسے میں آنسو بہاتی عورت کو تو دیکھ سکتا ہوں لیکن اپنے سابقہ تین منزلہ وزیر اعظم کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ براہ کرم مدد کیجئے بہت ثواب ہو گا۔ بات کہاں سے نکلی اور کہاں پہنچ کر سیاست کے کوٹھوں پر چڑھ گئی بات دیواروں سے باتیں کرنے‘ ان کی باتیں کرنے سے شروع ہوئی تھیں تو ہم قصہ دیوار کو پھر سے جوڑتے ہیں۔ میں کینیڈا میں تھا۔ وادی یوکان اور الاسکا کے برفزاروں میں تقریباً بارہ ہزار کلو میٹر کی بائی روڈ مسافت طے کر کے تھکا ہارا لوٹ رہا تھا اور فوری طور پر اپنے پاکستان لوٹ جانا چاہتا تھا کہ میں پاکستان سے بہت اداس ہو چکا تھا جب میرے موبائل فون کی گھنٹی نے غل مچا دیا۔’’تارڑ صاحب۔ میں برلن سے بول رہی ہوں۔ جرمنی کی سرکاری ادبی تنظیم لٹریٹر ورک سٹاٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کو برلن مدعو کرنا چاہتی ہوں۔ یہ تنظیم ہر برس جنوب مشرقی ایشیا کے کسی ایک نمائندہ نثر نگار کو سرکاری طور پر دعوت دیتی ہے۔ اس برس ہم آپ کو آپ کے ناول’’راکھ‘‘کے حوالے سے برلن چلے آنے کی دعوت دیتے ہیں جہاں آپ کے ناول کے بارے میں مقالے پڑھے جائیں گے اور جرمن زبان میں ترجمہ کردہ اس کے چند ابواب کی ڈرامائی تشکیل دی جائے گی۔ آپ مہمان اعزاز ہوں گے اور آپ کی آمدو رفت اور رہائش کے بندوبست مناسب ہوں گے‘‘ مجھے اس دعوت کو قبول کرنے سے پیشتر کچھ تو نخرے کرنے چاہیے تھے کہ دراصل میں تو بہت مصروف ہوں اور میرا جی نہیں چاہتا وغیرہ وغیرہ لیکن آپ سے کیا پردہ۔ میرا دل تو گارڈن گارڈن ہو گیا۔ کہاں میں اور کہاں یہ مقام اور وہ بھی برلن کا اللہ اللہ۔ لیکن صرف ایک اڑچن تھی۔ کہ ویزا حاصل کرنے کے لیے آپ پاکستان واپس جائیے۔ جرمنی کے سفارت خانے میں حاضر ہو جائیے اور پھر اڑان کر کے برلن چلے آئیے۔ اب بے شک میں برلن میں اپنی بین الاقوامی پذیرائی کے لیے مرا جاتا تھا لیکن میں بہت تھک چکا تھا۔ اتنی طویل مسافتوں کی مجھ میں سکت نہ تھی کہ پہلے پاکستان پہنچوں اور پھر ویزا حاصل کر کے واپس برلن کا سفر اختیار کروں تو میں نے بادل نخواستہ انکار کر دیا۔ معذرت کے ساتھ اطلاع کی گئی کہ یہ لازمی ہے کہ کسی بھی پاکستانی کو جرمنی کا ویزا صرف پاکستان میں جاری ہو سکتا ہے۔ کسی اور ملک میں نہیں۔ تب میں طیش میں آ گیا اور یاد رہے کہ یہ ایک ٹیلی فون نہ تھا۔ ٹیلی فونوں کے بہت سلسلے تھے اور میں نے اس خاتون سے کہا کہ مجھے کچھ چائو نہیں برلن دیکھنے کا میں پچھلے ساٹھ برس سے وہاں آتا جاتا رہا ہوں۔ اگر تو یہیں کینیڈا میں جرمن سفارت خانہ مجھے ویزا جاری کر دے تو میں آتا ہوں ورنہ کھسماں نوں کھائیے۔ نہیں آتا۔ پورے تین روز بعد ٹورنٹو میں جرمن کونسل جنرل نہ صرف مجھے ویزا جاری کر رہے تھے بلکہ نہایت کڑوی کافی کے ساتھ بویرین میٹھے کیک بھی پیش کر رہے تھے۔ٹورنٹو سے برلن روانگی کے دوران ایک یادگار تجربہ ہوا جو آج بھی میرے دل کو چھوتا ہے۔ ٹورنٹو ایئر پورٹ پر امیگریشن کائونٹر کے پیچھے ایک بھرے بدن کی پستہ قد کینیڈین کسٹم افسر نہایت رعونت سے مسافروں کو تکتی ہے۔ اس کے کولہوں پر ایک بھاری پستول آویزاں ہے اور وہ بھی یقینا اس کی مانند بھرا بھرا ہو گا۔ مجھے اس کے عقب میں آویزاں ایک بورڈ نظر آتا ہے جس پر لکھا ہے کہ آپ اپنے ہمراہی سامان میں چاقو‘ چھریاں‘ قینچیاں اور لائٹر جہاز پر نہیں لے جا سکتے۔ اور میں ایک حماقت کر چکا تھا۔ غلطی سے اپنے ہمراہی بیگ میں دوستوں کو تحفے دینے کے لیے درجن بھر الاسکا کے بارہ سنگھوں والے لائٹر لے آیا تھا۔ میں نے ان تمام لائٹروں کو بیگ میں سے نکال کر اس خشونت آمیز کینیڈین کسٹم افسر خاتون کے سامنے رکھ دیا اور کہا’’لیڈی‘ میں ان لائٹروں کو اپنے ساتھ تو نہیں لے جا سکتا؟ تو اس نے اپنے سیاہ ابرو ناگواری میں چڑھا کر کہا’’ہرگز نہیں‘‘اب جاتے جاتے میں نے ایک نثر نگار کے طور پر اس کی جانب فریب کا ایک تیر چلایا’’لیڈی ‘ بے شک آپ میرے سب لائٹر بحق سرکار کینیڈا ضبط کر لیجیے لیکن مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ جب میں کوئی سات آٹھ گھنٹوں کی پرواز کے بعد برلن ایئر پورٹ پر اتروں گا اور میں ایک سگریٹ لگانا چاہوں گا کہ میرا بدن ترس گیا ہو گا تب افسوس کہ اس سگریٹ کو سلگانے کے لیے میرے پاس کوئی لائٹر نہ ہو گا۔ میں یہ بیان دے کر ذرا آگے ہوا تو اس خاتون نے کائونٹر پر ڈھیر میرے لائٹروں میں سے ایک کو اپنی ہتھیلی سے دھکیل کر میرے سامنے کرتے ہوئے نہایت سنجیدگی اور خشونت آمیزی سے کہا ’’ویر جی۔ اینوں چھیتی نال چَک لو‘‘ مجھے پہلے تو یقین نہ آیا کہ یہ ٹھیٹھ پنجابی کہاں سے آ گئی اور پھر میں نے اُس سِکھ پنجابی ہمشیرہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چھیتی نال وہ ایک لائٹر چَک لیا۔ یاد رہے کہ ٹورنٹو ایئر پورٹ پر انگریزی‘ فرانسیسی کے علاوہ پنجابی میں بھی اعلان کیے جاتے ہیں۔ برلن ایئر پورٹ پر اتر کر میں نے اپنا پہلا سگریٹ اس سِکھ ہمشیرہ کے عطا کردہ لائٹر سے سلگایا۔ جس نے مجھے ویر جی کہا تھا۔