جنرل عابد لطیف خان دھیمے مزاج کے حامل ایک خوشگوار شخصیت کے مالک افسر ہیں۔ہماری باہم شناسائی کا آغاز سال 2008ء کے آس پاس اس وقت ہوا، جب ان کی تعیناتی منگلا کور میں ہوئی، جہاں میں پہلے سے موجود تھا۔ دو چار برسوں کے بعداگلے رینک پر ان کی ترقی ہوئی تووہ شمال مغربی سرحد کے ساتھ ایک بریگیڈ کی کمان سنبھالنے کے لئے چلے گئے، جبکہ کچھ ہی عرصہ بعدخود میری پوسٹنگ بھی کوئٹہ ہو گئی ۔ ایک طویل وقفے کے بعد ہماری اگلی ملاقات چکلالہ کینٹ میں ان کے گھر پراس وقت ہوئی جب ہم انہیںجنرل کے رینک پرترقی پانے پر مبارک باد دینے ان کے گھر پہنچے تھے۔ کافی وقفے کے بعدجنرل صاحب سے اگلی ملاقات کا موقع ایک معروف تین ستارہ جنرل صاحب کے صاحبزادے کی دعوتِ ولیمہ میں اس وقت پیدا ہوجب وہ آبپارہ میں ایک اہم عہدے پر تعینات تھے۔تاہم جنرل صاحب اس وقت دو چار معروف سیاستدانوں کے گھیرے میں تھے چنانچہ ہم ملاقات کی سعادت سے محروم رہے۔ برسوں بعدحال ہی میں ہمارے عزیز کورس میٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم رضا کی والدہ کی نمازِ جنازہ کے بعدجب تدفین کے مراحل طے پا رہے تھے، تو ایک طویل عرصے کے بعدجنرل عابد سے بالمشافہ ملاقات ہوئی۔علیک سلیک کے بعد یہ جان کرخوشی ہوئی کہ جنرل صاحب ناچیز کے ہفتہ وار کالموں کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔تاہم اس سے بھی زیادہ خوشی یہ جان کرہوئی کہ جنرل صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو تھیلیسمیا کے مریضوں کی بہبود کے قابلِ رشک نصب العین کے لئے وقف کر چکے ہیں۔یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ تھیلیسمیا کا مرض آخرہے کیا؟ ہم آپ میں سے وہ خوش قسمت کہ جن کا واسطہ براہِ راست اس مرض سے نہیں پڑا، وہ شاید ہی اس کی ہیئت، علامات یا پیچیدگیوں سے واقف ہوں۔تھیلیسمیا دراصل ایک مورثی جنیاتی بیماری ہے کہ جس میں مریض کا جسم خون کے سرخ خلیوں میں پائے جانے والی ہیمو گلوبن کی مناسب مقدار پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ہیمو گلوبن خون کے سرخ خلیوں میں پائی جانے والی اس پروٹین کوکہتے ہیں کہ جو پھیپھڑوں سے آکسیجن لے کر اسے پورے جسم میں پہنچانے کا کام کرتی ہے چنانچہ تھیلیسمیا کے مریضوں کا جسم آکسیجن کی مناسب دستیابی سے محروم رہتا ہے۔ نتیجے میں چونکہ مریض کی ہڈیوں کا گوداخون کے سرخ خلئے پیدا کرنے کی صلاحیت کھو دیتاہے،چنانچہ اسی بناء پراعضائے رئیسہ سمیت پورا جسم مرض کے مضر اثرات سے متاثر ہوناشروع ہو جاتا ہے۔ تھیلیسمیا کے مریض ہمہ وقت سستی اور مسلسل تھکن کا شکار رہتے ہیں۔ان کی جلد پیلی جبکہ پیشاب کی رنگت سیاہی مائل ہوجاتی ہے۔تھیلسمیا کا شکار بچوںمیںنشو ونما اپنے ہم عمروں کی نسبت سست رفتارہوتی ہے۔ان کے پیٹ بڑے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ علاج دستیاب نہ ہونے کے نتیجے میں چہرے کی ہڈیوں کی ساخت بھی بگڑنے لگتی ہے۔ مرض کی قسم اور شدت کے لحاظ سے مریض کو دوائیوں کے ذریعے علاج سے لے کر باقاعدگی سے خون کی منتقلی تک کا محتاج ہو کر زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔تھیلسمیا کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں کہ جنہیں تھیلیسمیا میجر اور تھیلیسمیا مائنزکہا جا تا ہے۔ تھیلیسمیا میجرکا شکار مریض زیادہ پیچیدہ صورتِ حال کا شکار ہوتے ہیں۔ایسے مریضوں کومعمول کی زندگی گزارنے کے لئے ناصرف باقاعدگی سے دوائیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے بلکہ بلڈ ٹرانسفیوژن بھی ان کی مستقل ضرورت بن جاتی ہے۔ تھیلیسمیا کا ایک ایسا مریض کہ جسے خون کی منتقلی مستقلاََدرکار ہو، تازہ خون کی عدم دستیابی کی صورت میںاُس کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔تھلیسمیا مائنروالے مریضوں کو اگرچہ اس درجے کے علاج معالجے یا بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم اگر تھیلیسمیا مائنر کا شکار دو افراد باہم ازدواجی بندھن میں بندھ جائیں تو ان کی اولادپیدائشی طور پر تھیلیسمیا میجر کا شکار ہوسکتی ہے۔ایسی کسی بھی افسوسناک صورتحال کا تدارک اسی صورت ممکن ہے کہ شادی سے پہلے میاں بیوی کے خون کی تشخیص لازماکروائی جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس باب میں قوانین موجود ہیںاور اُن پرسختی سے عمل درآمد بھی کروایا جاتا ہے۔چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ بحیرہ روم کے کنارے واقع وہ ممالک بھی کہ جہاں اس مرض کی پہلی بار تشخیص ہوئی تھی ، عوام میںاس کے اسباب سے متعلق آگہی پیدا کئے جانے سمیت متعلقہ قوانین پر کڑے عمل درآمد کے ذریعے تھیلسمیا کو اپنے ہاں سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف جہاںہمارے آس پڑوس میں بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک بھی اس مرض کی بیخ کنی میں کامیاب ہو چکے ہیں،بدقسمتی سے ہمارے ہاں تھیلسمیا کا خاتمہ تو دور کی بات اس کے پھیلائو پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔چنانچہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تھیلیسمیا کے پانچ ہزار ایسے نئے مریض سامنے آرہے ہیں کہ جن کو باقاعدگی کے ساتھ علاج اور خون کی منتقلی درکار ہوتی ہے۔مریضوں کی تعداد میں اس رفتار سے اضافے کی بنیادی وجہ عوام کے اندر مرض سے متعلق آگہی کا فقدان ہی بتایا جاتا ہے۔ جنرل عابد لطیف خان کی سرپرستی میںقائم کردہ حاجرہ حمزہ فائونڈیشن نے حال ہی میں الخدمت فائونڈیشن کے تعاون سے ایبٹ آباد میںتھیلیسمیا کے مریضوں کے علاج ، دیکھ بھال اور بلڈ ٹرانسفیوژن کے لئے ایک عمدہ تھیلیسمیا سنٹر قائم کیا ہے۔اس سنٹر کے قیام کے محض ابتدائی تین مہینوں کے اندراندرلگ بھگ700 افراد کو تشخیصی مراحل سے گزارنے کے بعد 107 مریضوں کوعلاج کے لئے رجسٹرڈکیا جا چکا ہے۔حاجرہ حمزہ تھیلیسمیا سنٹر میں اس مرض سے متعلق تمام لیبارٹری ٹسٹ کئے جانے کی سہولت موجود ہے۔ تشخیص کے بعدرجسٹرڈکئے جانے والے مریضوں کومفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں، جبکہ بلڈٹرانسفیوژن کی سہولت اس کے علاوہ ہے۔ ایسے کسی بھی سنٹرکے لئے کہ جہاں مریضوں کی تعداد میں اضافے کا دبائومسلسل موجود رہتا ہو، سہولیات کی لگاتارفراہمی کے لئے مناسب وسائل کی دستیابی کسی چیلنج سے کم نہیں۔تاہم جنرل عابد لطیف اس باب میں اللہ پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔یوں بھی ان کا خیال ہے عوام کے اندر اس مرض سے متعلق آگہی پیدا کر کے مریضوں کی تعداد پر قابو پانا،پہلے سے موجود مریضوں کے علاج کے لئے وسائل کی دستیابی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔چنانچہ اُن کا پیغام ہے کہ پرنٹ،الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے تھیلیسمیا سے متعلق آگہی پھیلانے کے کارِ خیر میں ہر باشعور شہری کوحصہ ڈالنا چاہیئے۔ اسی پس منظر میںجنرل صاحب نے حالیہ دنوں میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ میںبھی تھیلیسمیا پر کچھ لکھوں ۔ تاہم اسی کے ساتھ ہی انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ ان کی اس خواہش کا محرک ذاتی تشہیر ہر گز نہیں، بلکہ اس کے پسِ پشت واحد مقصد اس مرض سے متعلق عام لوگوں میں شعور اور آگہی کو بیدار کرنا ہے۔ازکارِ رفتہ سپاہی کے لئے اس کارِعظیم میں ایک ادنیٰ حصہ ڈالنا کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔