منفرد شاعرہ شازیہ اکبر کے نئے مجموعہ کلام سے منتخب چند اشعار تمہیں جتنی میسر ہو ں اسی پر اکتفا کر لو وگرنہ چھوڑ جانے کا گوارہ فیصلہ کرلو …… آنکھیں دیوار ہو گئیں جن کی اْن کو تصویر بھیج دو اپنی …… آخرکار اٹھا کر ہم نے پھینک دیا ٹوٹا خواب بہت چبھتا تھا آنکھوں میں …… اتنی جلدی کیا ہے تھوڑا چاک پہ رہنے دو مجھ کو دستِ ہنر کے لمس کو ترسی ہوں میں یار ہمیشہ سے …… پہلی منڈی جنس کی منڈی انسانی تہذیبوں کی اور دنیا کے ہر خطے میں یہ بازار ہمیشہ سے …… خوش تھے دونوں اکھٹے رہتے ہوئے اک اداسی تھی ' اک بیاباں تھا …… میں آسمان سے اتری ہوں اور زمیں نے مجھے ہمیشہ اجنبی سمجھا ہے شازیہ اکبر …… ازل سے سوختہ تن ہیں مگر یہ زعم تو دیکھو لگی میری بجھائیں گے ستارے جھوٹ کہتے ہیں …… عشق کہتا ہے ابھی اْس کا ہنر خام رہے لوگ کہتے ہیں کمالات سے آگے نکلے …… اپنا آپ خسارہ کرنا پڑتا ہے ورنہ عشق دوبارہ کرنا پڑتا ہے …… چاہے کسی سے بات ادھوری رہ جائے کام تو گھر کا سارا کرنا پڑتا ہے …… یہ سزا دی روشنی تقسیم کرنے کی ہمیں یوں ہوا کی زد میں ہم دیوار پر رکھے گئے …… رات کے ہاتھ لگ گئے ہوں گے میں ستارے چھپا کے آئی تھی …… صبح دم سورج نے کھولا کرنوں کا جْوڑا مگر شب گزیدہ لوگ سمجھے اک شرارِ نغمہ ہے …… ان کو پھر نیند کہاں لاکھ جْھلاو جھولے جن کے مر جاتے ہیں شانوں پہ سلانے والے …… جب قیامِ لیل سے پہلے اندھیرا چھائے گا وقت نے طے کر دیا وہ کربلا کہلائے گا …… آج چپ چاپ آ کے لیٹ گئی یاد پہلے تو چھیڑتی تھی مجھے ہنر لے لو کوئی چاہے انھیں حسنِ بیاں دے دو مرے بچوں کو ورثے میں فقط اردو زباں دے دو …… رات گر گئی تھی خود آسماں کے تھال سے صبح تک پڑی رہی گھاس پر ہی چاندنی …… تم سرِ طور بلا کر بھی جلا دیتے ہو تم کبھی دید کا امکاں نہیں ہونے دیتے …… سرمئی رنگ ہے محبت کا آسمانی مزاج رکھتی ہے …… رات نے اپنی راکھ اٹھائی دن رکھا دروازے پر جمنے لگی تھیں کْہر میں آ ہیں کون رْکا دروازے پر …… نم آنکھوں سے جانے والا کیسا وعدہ سونپ گیا ایک یقیں کا بیج گرا اور پیڑ اْگا دروازے پر …… سمندر ہوں مگر صحرا کی نگرانی میں رہتی ہوں میں اک مانگے ہوئے چہرے کی پیشانی میں رہتی ہوں …… صلیبِ ذات کیا ہوتی ہے یہ مجھ سے کوئی پوچھے میں نوکِ خار پہ شبنم کی حیرانی میں رہتی ہوں …… آندھیاں بال کھولے پھرتی ہیں وہ بھی تعمیر کے زمانے میں …… بدن کی قید میں کوئی پرندہ پھڑپھڑاتا ہے قفس تبدیل کرنا چاہتا ہے ،تم ہوا بھیجو …… چیخ مت کھوکھلی عمارت میں دھیرے دھیرے خرام خاموشی …… کتنے کردار کہانی سے نکل جاتے ہیں یعنی ترتیبِ زمانی سے نکل جاتے ہیں …… ہم نے لگتی ہوئی قیمت بھی انھی کی دیکھی وہ جو سامان نشانی سے نکل جاتے ہیں …… ایک سکہ گر گیا تھا آسماں کی جیب سے رات آنچل کی گرہ میں ریزگاری چاند ہے …… یہ کیسی روشنی ہے ساتھ میرے کہ شاخِ نور مجھ میں پھل رہی ہے …… عمر کی جیبوں سے نقدی ختم ہونے پر کْھلا ہم وہیں ہیں شازیہ اکبر جہاں موجود تھے …… دیوار کیا اٹھی ہوئے آنگن جدا جدا چرخے جدا جدا ہیں، ترنجن جدا جدا ……