اسلام آباد (خبرنگار) آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائرکردی گئی ہے ۔درخواست میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے بارے میں فیصلے کو کالعدم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کاتعین نہیں کیا جاسکتا۔یہ انتظامی اختیارہے جس کا دارومدار وزیر اعظم کی صوابدید پر ہے ۔وزیر اعظم کسی بھی وقت کسی آرمی چیف کو ان کے عہدے سے الگ کرسکتا ہے ۔آرمی چیف کی مدت ملازمت کے بارے میں فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست وفاقی حکومت ، وزیراعظم ، صدر مملکت اور آرمی چیف کی طرف سے دائر کی گئی جس میں معاملے کی سماعت کیلئے لارجر بنچ تشکیل دینے اور خفیہ سماعت کرنے کی استدعاکی گئی ہے ۔نظر ثانی درخواست میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے متعدد قانونی نکات اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین کرنا وزیر اعظم کا انتظامی اختیار ہے ۔ عدالت نے معاملے میں مداخلت کرکے اختیار سے تجاوز کیا اور فیصلے میں ایگزیکٹو کے اختیارات کو کم کر دیا گیا ہے ۔قانون میں آرمی چیف کی ٹرم کا تعین کرناضروری نہیں ، آرمی چیف کی مدت کا تعین کرنا آرٹیکل 243کے منافی ہے ، قانون میں آرمی چیف کی مدت کا تعین نہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وزیر اعظم جب چاہیں آرمی چیف کورکھیں اور جب چاہیں عہدے سے ہٹا دیں ۔ درخواست میں اس قانونی نکتے کو بھی نظر ثانی کیلئے بنیادبنایا گیا ہے کہ فوج سکیورٹی کا ادارہ ہے اور اس وقت ملک کو سنگین سکیورٹی مسائل درپیش ہیں، ملکی حالات سکیورٹی آف پاکستان سے منسلک ہیں،درپیش سکیورٹی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے آرمی چیف کو دوسری ٹرم کیلئے آرمی چیف بنانے کا فیصلہ ضمیر کے مطابق کیا۔ درخواست میں عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ 28 نومبر کو اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیالیکن سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی تعیناتی کو قانون سازی سے مشروط کر کے معاملہ نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ دائرہ اختیار سے تجاوذ اور غیر قانونی ہے کیونکہ فیصلے میں آئین کی کئی دفعات کو نظر انداز کیاگیا۔نظر ثانی درخواست میں28نومبر کے مختصر اور سولہ دسمبر کے تفصیلی فیصلہ کو کالعدم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے بارے میں فیصلے میں کئی قانونی سقم موجودہیں ، آرٹیکل 243 کی ذیلی شقوں کو ایک ساتھ پڑھا جانا چاہیے ۔ عدالت روایات کو قانون میں بدلنے کیلئے زور نہیں دے سکتی۔ پارلیمنٹ نے 7 دہائیوں سے اس پہلو پر کبھی قانون سازی نہیں کی۔پارلیمنٹ نے قانون نہ بنا کر اپنے استحقاق کا استعمال کیا۔ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو مخصوص قانون سازی کی ہدایت نہیں کر سکتی۔مزید کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں ففتھ جنریشن وار جاری ہے ۔ پلوامہ واقعہ کے بعد جنرل باجوہ کی کپتانی میں پاک فوج کی تیاریاں منہ بولتا ثبوت ہیں۔دہشت گردی کیخلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی،سانحہ اے پی ایس کے زخم ابھی نہیں بھولے ،فوج اور عدلیہ کا تحفظ جمہوریت کیلئے لازمی ہے ۔ فوج کا تحفظ اندرونی اور بیرونی جارحیت کے مقابلے کیلئے ضروری ہے ۔ریاست کے دشمن کئی سالوں سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ جنرل باجوہ کے ملکی تحفظ اور سکیورٹی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات تاریخ کا حصہ ہونگے ۔ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔جنرل باجوہ کی دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے جلسے اور سمینار بھی ہوئے ،جنرل باجوہ نے کبھی خود توسیع نہیں مانگی اسلئے موجودہ حالات میں جنرل باجوہ کی دوبارہ تعیناتی مناسب تھی۔ مدت ملازمت میں توسیع دینا حکومت کا پالیسی فیصلہ تھا۔نظر ثانی درخواست میں اٹھائے گئے 28 قانونی نکات میں عدالت کے اختیار سماعت پر بھی سوال اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ کیا درخواست گزار کی درخواست قابل سماعت تھی؟ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کیخلاف نہیں ہے ؟درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کئی بے قاعدگیاں ہیں،فیصلے میں آئین و قانون کی اہم شقوں کو نظر انداز کیا گیا۔ آئین اور قانون کے بنیادی اصولوں سے صرف نظر کیا گیا،اسلئے استدعا کی جاتی ہے کہ عدالت عظمی اپنے 28 نومبر کے مختصر اور 16 دسمبر کے تفصیلی فیصلے پر نظر ثانی کرے اور نظر ثانی درخواست کی سماعت کیلئے لارجر بنچ تشکیل دیا جائے ۔