پاکستان کی تاریخ کے کچھ ایسے حیران کن لمحات ہیں جب عوامی مقبولیت کا بے پایاں اظہار اس شدت سے ہوا تھا کہ ان لمحات کے نقوش آج تک اس ملک کی سیاسی بساط پر ثبت ہیں۔ مقبولیت کے ایسے لمحے اور عوام کا اس طرح کا سیلاب اکٹھا کرنا کسی نادیدہ یا پسِ پردہ قوت کا کمال ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی کل استعداد اور طاقت ایسا کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ اتنے لوگوں کو کسی ایک شخصیت کے گرد جمع کرنا صرف اسی شخصیت کا کمال ہوتا ہے۔ اس ملک کی ساری انتظامیہ اور پسِ پردہ قوتیں مل کر بھی ایسا نہیں کر سکتیں۔ ایسے تین واقعات کا میں عینی شاہد ہوں اور شاید ان تین عظیم الشان عوامی طوفانوں سے بڑا کوئی اور طوفان پاکستان کی تاریخ نے نہیں دیکھا۔ پہلی دفعہ عوامی قوت کا مظاہرہ 22 جون 1966ء کو دیکھنے کو ملا جب ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کابینہ سے اس بنیاد پر مستعفی ہو کر نکلا تھا کہ ایوب خان نے 1965ء کی جیتی ہوئی جنگ تاشقند کی میز پر ہار دی ہے۔ ہزار سال تک بھارت سے جنگ کرنے کا نعرہ لگانے والے بھٹو کا ہر ریلوے سٹیشن پر استقبال ہوا، لیکن جیسے ہی راولپنڈی سے چلنے والی ٹرین لاہور کے سٹیشن پر پہنچی تو عوام کے جمِ غفیر نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ تمام حکومتی عوامل بھٹو کے خلاف تھے، لیکن عوام اس کی پروا کئے بغیر فرطِ محبت سے باہر نکل آئے۔دوسری دفعہ ایسی پذیرائی اور والہانہ پن 10 اپریل 1986ء کو پھر لاہور میں ہی دیکھنے میں آیا، جب اسی بھٹو کی بیٹی بے نظیر اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئی۔ لاہور کی سڑکیں انسانوں کے ہجوم سے بھر گئیں اور مینارِ پاکستان عوام کے بے پایاں ہجوم سے اُمڈ پڑا۔ یوں لگتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا اس قوم پر ایک قرض تھا جو وہ چکانا چاہتے تھے۔ اس دفعہ بھی تمام حکومتی عوامل بے نظیر کے خلاف تھے، لیکن لوگوں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کی بھی پروا نہ کی اور والہانہ انداز میں اس کے استقبال کے لئے نکل آئے۔ تیسری دفعہ ویسی ہی کیفیت 30 اکتوبر 2011ء کو دیکھنے کو ملی جب عوام گزشتہ پینتیس سال کی ’’اسٹیبلشمنٹ زدہ‘‘ سیاسی قیادت کی کرپشن سے تنگ آ کر عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مینارِ پاکستان پر جمع ہوئے۔ یہ بھی ایک جذبات میں اُمڈتا ہوا جمِ غفیر تھا۔ اس دفعہ بھی حکمرانی کے تخت پر اس کے مخالف جلوہ گر تھے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں اتنی استعداد ہے اور نہ ہی اس طرح کی ’’محبتیں‘‘ کسی منصوبہ بندی سے پیدا ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک دعویٰ ہے۔ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے وہ سب ایک ہی دل ہو اور وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹتا رہتا ہے‘‘۔ اس کے بعد اللہ کے رسولؐ نے دُعا فرمائی، ’’اے اللہ، اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیرے رکھ‘‘ (رواہ مسلم)۔ دُعا اس لئے کی گئی کہ ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ ہمارے دل اللہ سے برگشتہ صورت کی طرف بھی پھیر سکتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ ارشاد فرماتا ہے میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں، لہٰذا جب میرے اکثر بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو غضبانکی کی طرف پھیر دیتا ہوں‘‘ (ابونعیم: حلیتہ الاولیائ)۔ حکمران ہمارے اعمال کا مظہر ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ حاکم جسے اللہ بہتر حالات کے لئے منتخب کرتا ہے وہ اس کی رحمت کی علامت ہوتا ہے اور جسے ہم پر ظلم و جور کرنے کے لئے منتخب کرتا ہے وہ اس کی غضبناکی کی علامت ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایسا جمِ غفیر جو کسی لیڈر کے گرد اکٹھا ہوتا ہے، وہ کسی پراپیگنڈے کا محتاج نہیں ہوتا۔ بہت سارے دانشوروں اور میڈیا منیجروں کا خیال ہے کہ ہم اپنے کالموں، ٹی وی پروگراموں یا خبروں سے لیڈر بناتے یا گراتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو جس قدر منفی (Negative) پر یس عمران خان کو میسر آیا ہے، آج سے پہلے کسی اور لیڈر کو نہیں ملا۔ آپ کو پورے میڈیا میں سخت محنت سے اس کے حمایتی ڈھونڈنا پڑتے ہیں۔ دو درجن ٹی وی چینلوں میں سے صرف دو کا رجحان اس کی طرف ہے اور وہ بھی ذرا سی ’’جھاڑ‘‘ پر چُپ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے دورِ اقتدار کے آغاز سے ہی اس کے خلاف ایک منظم منفی مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اگر ان ’’میڈیا منیجروں‘‘ کی آوازوں میں ذرا سا بھی اثر ہوتا تو اس ملک میں عمران خان کے حق میں دس اپریل 2022ء کی شام کبھی نہ آتی۔ یہ دن بھی پاکستان کی تاریخ کا انوکھا ترین دن تھا۔ بھٹو کا 22 جون 1966ئ، بے نظیر کا 10 اپریل 1986ء اور عمران خان کا 30 اکتوبر 2011ء ان رہنمائوں نے ایک مسلسل منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا تھا، لیکن دس اپریل 2022ء اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ عمران خان کہ جس کی محبت میں یہ لوگ نکلے تھے خود اس کو بھی نہیں علم تھا کہ اس ملک کے دو سو سے زیادہ شہروں اور بیرون ملک آباد پاکستانی جن جن شہروں میں آباد، وہاں عوام ایک دم سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ یہ سب دلوں کو پھیرنے کا وہ عمل ہے جو اللہ نے خالصتاً اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ اچھائی کی طرف پھیر دے کہ ہم اس کی خواہش رکھتے ہیں اور بُرائی کی طرف جانے دے کہ ہماری خواہش اسی سمت ہے۔ لیکن اس کا ایک اور اُصول بھی ہے جو اس نے تین مختلف مدارج میں ایک ہی آیت میں بیان کیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے ’’اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کر لیتا ہے تو بدلا نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں ہوتا‘‘ (الرعد: 11)۔ یوں لگتا ہے ہم پہرے داروں والی حالت سے کب کے نکل چکے ہیں، لیکن ہم اب دوسرے مقام پر آ چکے ہیں، جہاں اللہ ہماری خواہش کے مطابق ہمارے حالات بدلتا ہے۔ ہماری اس خواہش کا اظہار دس اپریل کو جس زور سے کیا گیا تھا، لگتا ہے ہمارے حالات بدلنے والے ہیں۔ اگر عوام اپنی اس خواہش پر قائم رہے تو اس کے راستے میں آنے والی ہر قوت کو خس و خاشاک میں ملا دے گا اور ان کے ارادے ناکام بنا دے گا۔ اس کی چھوٹی سی جھلک وزیر آباد میں عمران خان کے قاتلانہ حملے سے بچنے کی صورت نظر آئی ہے کہ عقل جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر ہم اپنی اس حالات بدلنے کی خواہش پر ثابت قدم نہ رہے، ہم دل چھوڑ گئے، ہم ظلم کی وجہ سے راستہ بدل گئے تو پھر وہی بیان کردہ تیسری حالت ہم پر طاری ہو سکتی ہے کہ پھر ہمارا کوئی کارساز اور ساتھی بھی نہ رہے۔ یوں تو دنیا ہمیں چھوڑ چکی ہے، معاشی طور پر بھی اور سیاسی سطح پر بھی۔ لیکن اللہ نے ہمیں نہ چھوڑا تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔