8؍مارچ کو لکھے گئے کالم کا عنوان تھا ’’کاش عدمِ اعتماد ہوجائے‘‘۔کالم کمپوز ہونے کے بعد جب روزنامہ 92کو بھیجا جارہا تھا تو سامنے ٹی وی پر نظر پڑی، سکرین پر ’’تحریک عدمِ اعتماد جمع کروادی گئی‘‘ کی خبر دکھائی جارہی تھی، یہ دعا اتنی جلدی قبول ہوجائے گی اس کا تو ہرگز سوچا بھی نہ تھا، یہ دیکھنے کے بعدکالم میں ذیل کی سطروں کا اضافہ کیا۔ ’’عدم اعتما د کی تحریک آنے کے بعد عمران خان کے پاس کم از کم تین آپشن موجود ہیں۔ نمبر1: سمجھوتہ کرکے اپنی حکومت جاری رکھیں اور مناسب وقت کا انتظار کریں، نمبر2: پنجاب اسمبلی توڑدیں اور پنجاب کو انتخابی سیاست کا میدان بناتے ہوئے صوبائی انتخابات کے لیے متحرک ہوجائیں، پنجاب اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اپوزیشن کی جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔شہباز شریف اور پرویز الٰہی کا رومانس شروع ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گا۔علیم خان ہو یا جہانگیر ترین ، ان کے گروپس اسمبلی کی طرح تحلیل ہوکر ہواؤں میں بکھر جائیں گے۔مرکز میں عمران خان کی حکومت موجود رہے گی، خیبرپختونخوا ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستا ن میں حکومتوں کی موجودگی اور عمران خان کی اچانک جاگ اٹھنے والی مقبولیت پنجاب کے انتخابی میدان میں سب کو کچلتے ہوئے گزر جائے گی۔ آسانی سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب کے انتخابات میں کم از کم دو تہائی اکثریت مل جائے گی اور عمران خان باقی مدتِ انتخاب پوری کرنے کی بجائے اکتوبر نومبر میں قومی انتخابات کے لیے تیاری کریں۔‘‘ موجودہ حالات نے عمران خا ن کو بیساکھیوں، سہاروں اور کچھ لین دین کی مجبوریوں سے بے نیاز کردیا ہے، تحریک انصاف کے مایوسی میں پڑے اونگھتے ہوئے کارکنوں کو اچانک ہوشیار کردیا ہے ، وہ قطار در قطار عمران خان کے چاروں طرف سیسہ پلائی دیوار کی طرح تن کر کھڑے ہیں، اللہ کی مدد اور قوم کے بھروسے سے آج وہ سب حاصل ہوسکتا ہے جو کسی صورت ایک عوامی ، جمہوری قیادت کے لیے بہت دشوار گزار ہوا کرتا ہے۔ خصوصاً پاکستان جیسی ریاستوں کے لیے جو اندرونی مسائل اور بیرونی خطرات میں گھری ہوں۔جس کے دشمن طاقتور اور دوست الٹا اسی کی حفاظتی چھتری کے محتاج ہوں۔ زندگی میں ایسے امکانات کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں، جب کہا جاسکے کہ ’’جیت تو اپنی جیت ہے ، لیکن ہار بھی اپنی ہار نہیں‘‘کرکٹ کی زبان میں ،بولنگ ہو یا بیٹنگ ، دونوں صورتوں میں کھیل عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔اب سمجھوتوں کی منزل دور بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ’’حکومت نامی چیز موجودہ صورتحال میں کسی کام کی نہیں‘‘عمران کے لیے بے ثمر اور اپوزیشن کے لیے وبال جان رہے گی۔آج صرف ایک صورت باقی بچ رہی ہے ،وہ ہے کہ عوام سے رجوع کرکے نئے انتخابات کے بعد نئی قیادت اور حکومت کا فیصلہ کیا جائے۔ ریفری کا کام ختم ہوا، ثالث صرف اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ انتخابات کے لیے موزوں موسم اور وقت کے انتخاب پر فریقین کو راضی کریں۔ اتحادیوں کو لبھانے ، غداروں کو منانے اور ایسے سمجھوتے کرنے سے اجتناب کیا جائے جو آئندہ چل کر بھاری بوجھ ثابت ہوں، ان سے بچ رہنے کا وقت ہے ۔ اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ قوم کی زندگی کے فیصلہ کن موڑ پر جب عالمی منظر نامے پر نئی حقیقتیں پیدا ہوچکی ہیں اور پاکستان میں بھی بڑے بڑے فیصلے کرنے کا وقت ہے ، ہر مصلحت ، ہر لالچ اور ہر دباؤ آزادی سے فیصلے کرلینے کے زمانے میں غداروںکے خدشے ، لالچی اور موقع پرست اتحادیوں کی ضرورت سے آزاد ہوکر صرف اپنے بھروسے پر فیصلہ کن برتری کے زمانے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ وقت آن پہنچا ہے ، غداروں ، ناقابل بھروسہ دوست نما دشمنوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے فیصلہ کن معرکے میں ان سے نجات حاصل کرلی جائے۔ پیٹھ پیچھے خنجر کے خوف میں زندگی گزارنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ سارے خطروں کو کچلنے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ ’’یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو۔‘‘(القرآن) نواز شریف کا باہر جانا عمران خان کے لیے غصے اور مایوسی کا سبب بنا ، دراصل وہ مسلم لیگیوں کے اکٹھے ہونے میں رکاوٹ بن گیا جو ایک فیصلہ کن طاقت بن کر مقابلے پر آسکتی تھی، چوہدری جو اس متحدہ مسلم لیگ کی قیادت کرنے والے تھے وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے کچھ دن پہلے معروف تجزیہ کا ر، کالم نویس ہارون رشید کے ہمراہ چوہدری شجاعت حسین کی دعوت پر ان کے گھر مدعو تھے، پرویز الٰہی بھی تشریف رکھتے تھے، ہم چاروں کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا، عرض کیاکہ آپ انتخاب کے بعد متحدہ مسلم لیگ کی قیادت کرنے والے ہو۔ پانچ سال بعد آنے والے انتخاب میں متحدہ مسلم لیگ چھوٹے گروہوں کو اپنے ساتھ ملا کر عمران خان کے مقابلے میں اترے گی۔چوہدری پرویز الٰہی جھٹ سے بولے ، نہیں، ہم عمران خان کے ساتھ اتحاد کرچکے ہیں اور اس کا ساتھ نبھائیں گے۔ عرض کیا ، یہ مجبوری کا سودا ہے ، آپ سیاست میں چھوٹے حصہ دار کے طور پر زیادہ دیر رہنا گوارہ نہیں کریں گے۔ انتخابات کے بعد نواز شریف جیل میں ، شہباز شریف اور اس کا خاندان مقدمات کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ نواز شریف تادیر جیل کی سختیاں برداشت نہیں کرسکتے ، چنانچہ وہ آپ کی طرف دیکھیں گے اور وہ موقع آن پہنچے گا آپ جس کی تلاش میں ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جس پر وہ بھروسہ کرسکے ۔ اور اس کی حب الوطنی پر کوئی سوالیہ نشان نہ ہو۔ عمران خان کی شکل میں ایک ایسا لیڈر دستیاب ہے۔ لیکن یہ ناکافی ہے ، اس کے مقابلے میں ایک اور چاہیے جو وقت پڑنے پر اچھا متبادل بن سکے ، فی الوقت عمران خان کی طرح کا کوئی پرکشش ، شعلہ بیان لیڈر موجود نہیں، لیکن مسلم لیگ انتخاب کے ماہر امیدواروں کا اچھا گروہ رکھتی ہے جو عمران خان کی مقبولیت کے مقابلے اپنی مہارت آزماسکے۔ اس طرح دو پارٹی جمہوری نظام چلتا رہے گا۔ انتخابات کے چند دنوں بعد معروف دانشور ’’حسن نثار‘‘ کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچا تو تھوڑی ہی دیر میں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی بھی تشریف لے آئے، تعزیت پر دعا کے بعد حسب عادت بات سیاست کی طرف چل نکلی، راقم نے یاد دلایا جو کچھ واقعہ اوپر بیان ہوا ہے، اب کی بار اس کی تردید میں وہ پہلے کی طرح پرجوش نہیں تھے۔ پھر سب نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے دوران پرویز الٰہی ان سے ملاقاتیں کرتے رہے، سرعام کبھی ، کبھی لبِ بام ۔ اور ان ملاقاتوں میں جو کچھ خفیہ چل رہا تھا اس میں ٹوٹے پھوٹے نواز شریف کی آہ و زاریوں کا بھی دخل تھا، اب وہ خواب حقیقت بننے جارہا تھا کہ پرویز الٰہی ایک متحدہ مسلم لیگ کے ساتھ عمران خان کے متبادل کا کردار ادا کریں۔ یہاں پر پہنچ کر ان کی قسمت دغا دے گئی۔ نواز شریف نے بیماری کا ڈرامہ رچایا ، ان کے احسانوں میں دبے نظام عدل نے راستہ دیا ، چوہدری شجاعت حسین اپنی کمک لے کر میدان میں اترے ، عمران خان پر دباؤ ڈالا اور پاکستان سے باہر بھاگ نکلنے کے لیے راہ آسان بنادی، چوہدری صاحب کا خیال تھا کہ نواز شریف کانا پھوسی میں کیے وعدوں کا لحاظ کرتے ہوئے مسلم لیگ کے اتحاد کو ممکن بننے میں مخلص رہیں گے۔ نواز شریف پاکستان سے نکلتے ہی ہر دباؤ سے آزاد ہوگئے اور انہوں نے اپنے محسنوں کو ’’ٹھینگا‘‘ دکھا دیا۔ چوہدری برادران کو تحریک عدم اعتماد میں اپنی دیرینہ آرزو کے پورا ہونے کی امید تھی لیکن اب کی بار پھر سے نواز شریف ان کی راہ کا بھاری پتھر ثابت ہوئے۔ پھر کیا تھا ، بس یہ کہ ’’اِدھرکے رہے، نہ اُدھر کے‘‘