معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کو اسلامیہ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری مل گئی اور وہ اب اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھوائیں گے ، مجھے خوشی ہے کہ یہ ڈگری میری تحریک پر ملی، میں نے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اور گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن کو تحریری درخواست بھیجی تھی کہ شاکر شجاع آبادی کی وسیب کے لیے عظیم ادبی خدما ت کا تقاضا ہے کہ انہیں اعزازی ڈگری سے نوازا جائے۔ شاکر شجاع آبادی کو یہ ڈگری یونیورسٹی کے کانووکیشن کے موقع پر دی گئی ۔ گورنر پنجاب و چانسلر انجینئر محمد بلیغ الرحمن نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے خصوصی کانووکیشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محمد شفیع شاکر شجاع آبادی بلاشبہ سرائیکی زبان و ادب کا مضبوط حوالہ اور وسیب کا قابل فخر اثاثہ ہیں، سرائیکی زبان و ادب کے لیے ان کی خدمات یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔میں شاکر شجاع آبادی کو اسلامیہ یونیورسٹی کی طرف سے اعزازی ڈگری ملنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ گورنر پنجاب نے بجا کہا کہ بہاول پور سرسبزباغات، کتب خانوں اور عظیم تعلیمی اداروں کا مرکز اور قومی ترقی میں اہم کردار کا حامل ہے، یہاں کے تعلیمی اداروں نے بہترین ماہر تعلیم، ادیب و شاعر، کھلاڑی اور سائنس دان پیدا کیے ہیں جنہوں نے قومی و عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ گورنر میاں بلیغ الرحمن کو یہ یاد کرانا بھی ضروری ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو بدنام کرنے والے کرداروں کو بھی معاف نہیں کرنا چاہئے کہ صرف یونیورسٹی بدنام نہیں ہوئی بلکہ بہاولپور اور پورا وسیب بدنام ہوا۔ گورنر نے یہ بھی کہا کہ تعلیمی اداروں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سب سے آگے ہے اور فروغ تعلیم میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا کردار بلتستان تا سندھ و بلوچستان انتہائی قابل ستائش رہا ہے لیکن گورنر صاحب کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سب سے زیادہ پسماندہ سرائیکی وسیب ہے ، وسیب کے لوگ مفت تعلیم سے محروم ہیں۔ معاشی سروے کے مطابق بلوچستان اور بلتستان کے لوگ سرائیکی وسیب سے معاشی اعتبار سے بہت آگے ہیں اور یہ بھی دیکھئے کہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے مفت تعلیم کے ساتھ بلوچستان کے طالب علموں کو بھاری وظائف بھی دئیے جب کہ بلوچستان میں مزدور قتل ہوتے ہیں ۔پچھلے ماہ بھی شجاع آباد اور مظفر گڑھ کے سرائیکی مزدوروں کی لاشیں آئی ہیں۔ بلوچستان میں سرائیکی مزدوروں کے قتل کا یہ سلسلہ آج سے نہیں سالہا سال سے جاری ہے، ایک بھی قاتل نہیں پکڑا گیا، حکومت کی طرف سے مزدوروں کے لواحقین کو آج تک کوئی امداد نہیں ملی۔ گورنر اور دوسرے زعماء کو میرٹ پر بات کرنی چاہئے اور وسیب کے غریب طالب علموں کے لیے مفت تعلیم کا اہتمام ہونا چاہئے۔ گورنر نے اپنے خطاب میں کہا کہ شاکر شجا ع آبادی نے سرائیکی ادب اور کلچر میں اپنی شاعری سے گہرے نقوش ثبت کیے، ان کی شاعری نوجوانوں میں امید اور جدوجہد کا جذبہ بیدار کرتی ہے، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے دھرتی کے اس عظیم فرزند کو اعزازی ڈگری عطا کر کے خراج تحسین پیش کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری دنیا کے تمام انسانوں کیلئے ہے ، وہ انسان اور انسانیت سے پیار کرتا ہے ، وہ نہ اشتراکی ہے نہ سامراجی ، وہ دنیا میں پائی جانیوالی نابرابری ، جبر اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بات کرتا ہے وہ اعلیٰ سوچ کا ایک نامور شاعر ہے ، نہایت سادہ اور عام لفظوں میں بات کرتا ہے اور وہ جو بات کرتا ہے وہ دلوں میں اُتر جاتی ہے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر میں اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر میں شاکر کی شاعری کے حوالے اس لئے کوڈ نہیں کر رہا کہ اس کی شاعری ہوا اور خوشبو کی طرح ایک ایسے لطیف جذبے کا نام ہے جسے ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر گرفت نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ شاکر شجاع آبادی ہمارے نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہے ، وہ جب پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہزاروں کے مجمعے میںخاموشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے ۔ سامعین ان کے کلام کو گوشِ جاں سے سنتے اور چشم قلب سے پڑھتے ہیں ، وہ سرائیکی زبان کا واحد خوش قسمت شاعر ہے جو سب سے زیادہ پڑھا اور سنا گیا ہے ، اس کی باتیں فکر اور دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ، وہ جو بات کرتا ہے دل والی کرتا ہے اور ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کی مانند اس کے شعروں کی باتیں پُر تاثیر اور پُر مغز ہوتی ہیں ، میں سمجھتا ہوں دانائی کی ایسی باتیں کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں: بات ہیرا ہے ، بات موتی ہے بات لاکھوں کی لاج ہوتی ہے ’’بات‘‘ ہر بات کو نہیں کہتے بات مشکل سے ’’بات‘‘ ہوتی ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سرائیکی شاعر کی سوچ اور نقطہ نظر عالمگیر ہے اور وہ آنے والے وقت کا بھی ادراک رکھتا ہے۔ جیسا کہ غربت ، پسماندگی اور عدم مساوات پوری دنیا کا مسئلہ ہے تو شاکر شجاع آبادی نے بھی غربت کے خاتمے اور عام آدمی کے مسائل کی بات کی ہے ۔ مقامی مسائل بھی عالمی مسائل کا حصہ ہوتے ہیں ۔ شاعری کو خدا اور خدائی کے درمیان رابطے کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ جنگجو نہیں لیکن شاعری ‘ موسیقی اور کلچر کے ہتھیار سے انہوں نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل فتح کیے۔ اللہ اللہ بول سرائیکی ،مٹھڑی بٖولی بٖول سرائیکی، شاعری کے ان میٹھے بولوں سے جو موسیقی ترتیب پاتی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر جگہ طاقت کا چلن ہے مگر طاقت کا غلط استعمال تہذیب کے زمرے میں نہیں آتا، اس کی روک تھام کیلئے شاکر کی شاعری طاقت ور آواز ہے ، باوجود اس کے کہ وہ بول نہیں سکتا۔ اس کا جسم مفلوج ہے لیکن بات طاقت سے کرتا ہے: خدایا خود حفاظت کر تیڈٖا فرمان وِکدا پے کتھائیں ہے دین دا سودا ، کتھائیں ایمان وِکدا پے