چودہ سے اٹھارہ دسمبر تک کراچی ایکسپو میں کتاب میلہ تھا۔ لاہور سے میں اور برادرم عامر خاکوانی جبکہ دبئی سے سرمد خان اور طاہر علی بندیشہ کراچی پہنچے۔ سیرین ایئرلائن نے ہماری پوری پوری رات خراب کی۔ خیر کراچی میں میرے لئے کئی دلچسپیاں تھیں۔ صبح پانچ بجے پہنچ کر ہم لوگ 10بجے باہر نکلنے کو تیار تھے۔ سب سے پہلے یونیورسٹی روڈ پر ایکسپو سنٹر پہنچے۔ گلشن اقبال سے بمشکل دس منٹ لگے۔ جہلم بک کارنر کے سٹال پر گگن شاہد، عملدار اور دیگر احباب موجود تھے۔ کتاب میلے میں منتظمین نے جانے کن لوگوں کو کھانے کے سٹال دیئے تھے کہ ہمارا تو ناشتہ بھنگ ہو گیا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پہلے وقت میں شہر کے سکولوں کے بچے بچیاں آ رہے تھے۔ بچوں کے لیے کئی پبلشروں نے سٹال لگائے ہوئے تھے۔ جہاں درسی، اخلاقی تربیت، معلومات عامہ اور دینی تعلیم کی کتابیں موجود تھیں۔ سائنسی موضوعات پر بہت سی کتابیں تھیں۔ انگریزی اردو ہر طرح کی کتابیں ۔کتاب میلے سے ہمیں سینئر چارٹرڈ اکائونٹنٹ افضل ڈوسانی صاحب کے ساتھ میمن گوٹھ سے آگے ان کے نرسری فارم پر جانا تھا۔ دھوپ کی چمک میری توقع سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ لاہور سے چلتے وقت چمڑے کی جیکٹ پہن لی تھی۔ جیکٹ بیگ میں رکھ کر کوٹ لیا تھا۔ اب کوٹ میں بھی گرمی محسوس ہونے لگی۔ کراچی شہر سے نکلے اور ملیرکینٹ سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے۔ ایک جگہ سڑک کے ساتھ قدیمی چوکنڈی قبرستان دیکھا۔ گاڑی رکوائی سرمد خان اور ڈوسانی صاحب سڑک کنارے کھڑے رہے۔ میں اور طاہر علی بندیشہ قبروں کا یوں معائنہ کرنے لگے گویا ہم سے بڑا محقق کوئی نہیں۔ دو، تین اور چار منزلہ قبروں میں سے کچھ تین سو سال اور کچھ سات سو سال تک قدیم ہیں۔ پتھر بیل بوٹوں سے منقش ہیں۔ لوگ کئی پتھر اٹھا لے گئے ہیں۔ قبرستان بہت بڑا ہے۔ پرانی قبریں مٹ رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بلوچ قبائل کا قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں آسودہ افراد کے بارے میں کچھ دوستوں سے پوچھا لیکن وہ زیادہ تفصیل نہ بتا پائے۔ افضل ڈوسانی صاحب کا فارم ہائوس 4ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کے باغبانوں نے انڈور پودے اچھی طرح رکھے ہوئے ہیں۔ ٹپیری اور سپائرل پودے بھی تھے۔ بوگن ویلیا، لیڈی پام، کروٹن، سپیراگس، سپائیڈر للی کے ہزاروں گملے ہیں۔ کئی طرح کے آم کے درخت ہیں۔ چیکو پکے ہوئے تھے۔ فالسہ سرخ ہو رہا تھا۔ بیر ابھی کچے تھے۔ ایک حصہ شیڈ میں رکھے پودوں کے لیے مخصوص تھا۔ طلبگاروں کے لیے گھاس موجود تھا۔ اردگرد دھوپ اتری ہوئی تھی۔ پودوں نے آکسیجن کو تازہ کر دیا تھا۔ فارم ہجوم اور ٹریفک والے علاقے سے دور ہے اس لیے سکون اور خاموشی طبیعت کے لیے اکسیر محسوس ہوتی ہے۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے گزار کر یہاں سے نکلے۔ ایک بار پھر ایکسپو سنٹر آ گئے۔ صبح ایک ہال میں موجود سٹال دیکھے تھے۔ اب باقی ہالوں میں بھی جانا ہوا۔ موضوعات کا تنوع موجود تھا۔ ایک سٹال پر پچا س، ستر سال اور اس سے بھی پرانی کتابیں و رسائل مجود تھے، طاہر بندیشہ کی لاٹری لگ گئی جب انہیں نقوش کا لاہور نمبر یہاں سے ملا۔ میں نے دیکھا کراچی کی خواتین پورے اعتماد کے ساتھ کتاب خریدنے آ رہی تھیں۔ اس دوران انہیں کوئی علمی شخصیت نظر آئی تو وہ بلا جھجھک کھڑے کھڑے تبادلہ خیال کر لیتی ہیں۔ ایک حیران کن منظر یہ تھا کہ مدارس کے طلباء اور ان کے بزرگ اساتذہ کتابیں خریدنے میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ کراچی میں لوگ کتاب میلہ میں تماشائی بن کر نہیں آئے بلکہ کتاب خریدنے آئے ہیں۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آخری روز لگ بھگ تمام پبلشروں کے سٹال خالی ہو گئے۔ پہلے دن جناب اقبال دیوان نے کلفٹن کے ایک معروف ریسٹورنٹ میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ اقبال دیوان عمدہ نثر نگار ہیں۔ ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں، کئی معاملات میں ان کی ذات میں ایک محبت بھری پراسراریت محسوس ہوئی۔ ڈنر کے بعد ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ریونیو افسر کاشف صاحب ہماری فرمائش پر سمندر دکھانے لے گئے۔ سمندر تو شہر کے بند سے کچھ فاصلے پر ہے۔ رنگ برنگی جھنڈیوں اور کپڑے سے آراستہ ڈولی والے اونٹ موجود تھے۔ ایک گاڑی ریت سے بھرے ساحلی علاقے سے سمندر تک لے جانے کو تیار تھی لیکن دل نہ مانا۔ میں نے ملائیشیا کے پورٹ ڈکسن اور ابوظہبی کے ساحل دیکھ رکھے ہیں۔ دبئی اور شارجہ والوں نے بھی سمندر کو پارک کی شکل دیدی ہے۔ ایک کراچی ہے جہاں کسی کو سمندر کا کنارہ سنوارنے کا خیال نہ آیا۔کتاب میلے میں ایک کتاب بلیو اکانومی کی دیکھی تھی۔ ایسا بہت سا میٹریل دنیا بھر میں شائع ہو چکا ہے جو سمندر اور سمندری وسائل کو معاشی فوائد حاصل کرنے کا ذریعہ بتاتا ہے۔ بس کسی کو خبر نہ ہوئی تو وہ کراچی کی انتظامیہ ہے۔ دل چاہ رہا تھا کہ ناریل کا پانی پیوں، طاہر بندیشہ بھی ہمخیال تھے لیکن شہر بھر میں ناریل کی بہتات کے باوجود قسمت نے یاوری نہ کی۔ جامعہ الرشید ایک ماڈرن ادارہ ہے۔ دینی تعلیم کے ساتھ بزنس مینجمنٹ، فنانس، فلکیات، قانون، حلال فوڈ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ادارے سے وابستی ندیم صاحب نے بتایاکہ عربی، انگریزی، چینی، فرنچ زبانیں سکھائی جاتی ہیں۔ یہاں طلباء کے ساتھ عامر خاکوانی کا سیشن تھا۔ کچھ معاملات پر میں نے بھی رائے پیش کی۔ میرا خیال ہے مدرسہ اصلاحات کی تجاویز ترتیب دیتے وقت جامعہ الرشید کو ضرور سامنے رکھا جائے۔ ہم نے سہراب گوٹھ دیکھا، جہاں عشروں تک جرائم پیشہ افراد کا تسلط رہا۔ اس کے سامنے خانہ بدوشوں نے بہت بڑی بستی بنا رکھی ہے۔ مقامی آبادی کی اکثریت ایم کیو ایم کے لیے اب بھی ہمدردی محسوس کرتی ہے۔ ایک ڈرائیور کا کہنا تھا کہ اگر بانی ایم کیو ایم باقاعدہ کسی گروپ یا شخصیت کو پارٹی سونپنے کا اعلان کر دیں تو ایم کیو ایم زندہ ہو جائے گی۔ ہم تین سال سے بند مزار قائد پر گئے۔عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر گئے۔ زیب النسا سٹریٹ صدر کی قدیم عمارتوں کو دیکھا۔ کثیر المنزلہ عمارتوں کو دیکھا جو قانونی تنازعات کے باعث ویران پڑی تھیں۔ڈاکٹر سلیم شیخ ملنے آئے، سہیل دانش صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی، مجاہد بریلوی صاحب سے نہ مل سکا،زنوبیہ سمیت بہت سے احباب رہ گئے ۔ پندرہ بیس کتابیں لایا ہوں جن پر بات ہوتی رہے گی۔