امریکی میجورٹی لیڈر چْک شومر نے امریکی سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے اسرائیل میں نئے انتخابات اور موجودہ اسرائیلی وزیراعظم کے علاوہ حکومت بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شومر نے صہیونی ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اَمن کی راہ میں سب سے بڑی رْکاوٹ قرار دیا ہے۔جب تک نتین یاہو وزیراعظم کے عہدے پر تعینات ہیں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم نہیں ہوسکتا۔ چْک شومر بنیادی طور پرہمیشہ صہیونی ریاست کے وفادار اور حامی رہے ہیں۔ اِنہوں نے ہر موقع پر یہودی ریاست کو بھرپور تعاون فراہم کرنے پہ زور دیا ہے۔ حتی کہ امریکہ میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات یہودی افسران کی پشت پناہی کا الزام بھی شومر پر لگتا رہا ہے۔ مگر گزشتہ پانچ ماہ سے جِس انداز میں امریکی صدر جوبائیڈن نے یہودی ریاست کی غیر مشروط مدد کی ہے، اِس پر امریکی عوام اور اب امریکی سینیٹ میں بائیڈن مخالف آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سول سوسائٹی و عوام اپنی حکومتوں کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجا ج ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن جونہی جلسوں میں خطاب کیلئے جاتے ہیں، آگے امریکی عوام کی جانب سے فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی نعشوں کے پوسٹر اور پلے کارڈز اْٹھا کر بائیڈن کے خلاف نعرے بازی ایک معمول بن چکا ہے۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اَنٹونیو گوئٹرز نے ’اسلاموفوبیا کی روک تھام کے عالمی دن‘ کے موقع پر ایک بیان میں کہاہے کہ ہمیں عالمی منظر نامہ پر مسلمانوں کے خلاف اْبھرتے جذبات پر قابوپانے کی ضرورت ہے۔ گوئٹرز کے مطابق عالمی رہنماؤں کو اِس اہم معاملے پر فوری غوروفکر کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کے خلاف ادارہ جاتی تعصب اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بڑھتی جارہی ہے۔ اِسے فوراََ ترک کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی اقوامِ متحدہ میں پاکستان نے ایک خصوصی قرارداد پیش کی ہے جس کے مطابق اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تعصب، نفرت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے اقدامات کی روک تھام کے لئے ایک نمائندہ خصوصی تعینات کرنے کی ضرورت ہے۔ قرارداد کے حق میں 115جبکہ 44ووٹ اِس کے خلاف پڑے۔ بھارت نے حسبِ معمول قرارداد کو مسترد کرنے پہ زور دیا، اسرائیل ووٹنگ عمل سے باہر رہا جبکہ امریکہ، چین اور روس نے قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔امریکی حکومت ہر صورت میں گریٹر اسرائیل کے مقصد کے حصول کیلئے صہیونی ریاست اور امریکہ میں صہیونی لابی کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ غزہ کی پٹی پہ آباد بیس لاکھ نہتے فلسطینیوں کو گزشتہ پانچ ماہ سے جس طرح بدترین نسلی کشی کا سامنا ہے اْس کی مثال صرف صہیونیت کی جڑوں سے ہی برآمد ہوسکتی ہے۔ نسل انسانی نے جو تباہی چنگیز خان اور اْس کے پوتے ہلاکو خان کے ادوار میں دیکھی۔ ویسی ہی انسانی نسل کشی کے مناظر فلسطین میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ غزہ جل رہا ہے۔ غزہ لہو لہو ہے۔ غزہ کی راکھ ناگاساکی جیسی تباہی کی یاد تازہ کررہی ہے۔ غزہ کے معصوم عوام ماہِ مقدس میں مصری سرحد پہ واقع پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں۔ اْمت ِ مسلمہ غفلت کی چادر تان کر سورہی ہے۔کسی مْسلمان رہنما کے کان پہ جوں تک نہیں رینگ رہی۔ غزہ میں مسلمان جل رہا۔ مسلمان کی اولاد جل رہی ہے۔ مسلمان کی نسل کشی ہورہی ہے۔ دوسری جانب اْمت ِ مسلمہ کے سرکردہ رہنماء صہیونی ریاست کے خلاف محض بیانات تک محدود ہوچکے ہیں۔ غزہ پہ صہیونی ریاست کی یلغار نے اْمت ِ مسلمہ کوپیغام دیا ہے کہ اب دیگر مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے تیار ہوجاؤ۔ کیونکہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی طرف گامزن ہے۔ مسلمان کو جدید مغربی ایجادات اور جنگی سامانِ حرب سے ڈرایا جارہا ہے۔ حالانکہ غزواتِ رسول اللہ میں مسلمانوں کے آلاتِ حرب دشمن کے ساز و سامان سے کہیں کم تھے۔ مگر مسلمانوں میں جذبہِ جہاد ہی وہ بنیادی عنصر تھا جس کے طفیل قیصر و کسریٰ کی عظیم الشان سلطنتوں نے مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ یہ جذبہِ مِلی تھا کہ وسط ایشائی سرزمین کے ایک چھوٹے سے ’کائی‘ قبیلے سے اْٹھنے والی لہر نے دنیا کی عظیم الشان سلطنتِ عثمانیہ قائم کردی، جو قریباََ چھ سو سال قائم و دائم رہی۔یہ جذبہِ جہاد تھا جس کی بدولت ایک نوجوان ترک سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی صدیوں سے قائم عیسائی ریاست کے دَر پر گھوڑوں کے ٹاپوں اور توپ کے گولوں سے دستک دی۔ یہ جذبہِ جہاد تھا کہ اْسی سلطان نے سقوطِ غرناطہ کا یوں بدلہ لیا کہ کسی مغربی ملک میں صدائے احتجاج بلند کرنے کی ہمت تک نہ ہوئی۔مگر اْسی سلطنت ِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے میں بھی یہودی سازش شامل ِ حال تھی۔ اَب وہی یہودی ریاست مسلمان ممالک پر چڑھ دوڑی ہے۔صہیونیت اْمت ِ مسلمہ کی غیرت کو للکار رہی ہے مگر کوئی جواب دینے والا نہیں۔ اِس صہیونیت کے پیچھے مغربی تہذیب کی وہ یلغار ہے جو کرہِ اَرض سے اْمت ِ مسلمہ کا وجود مٹانے کے درپے ہے۔ 9/11کی پہلی کوشش کے بعد یہ دوسری کاری ضرب مسلمانوں پہ لگائی جارہی ہے۔ اِسی طرف اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اشارہ کیا ہے۔ پوری دْنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر صدائے نفرت بلند کی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر ایک بار پھر مسلمانوں کے دین، مسلم تہذیب اور عالمی نظریات پہ کاری وار کیا جارہا ہے۔ محض غریب مسلمان رب العزت سے فلسطین بھائیوں کی صدائے سلامتی بلند کرتے ہوئے اَشک بار ہے۔ مگر بقول بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کہ کب اَشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں؟ کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے؟ دو حق و صداقت کی شہادت سر ِ مقتل، اْٹھو کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے!