وہ جو تقریباً دو سال سے سخت فوجی محاصرے میں ہیں، وہ جن کی شناخت، زمینیں اور حقوق چھینے گئے ہیں، وہ جن کے پندرہ لاکھ بچوں کے سکول اٹھارہ ماہ سے بند ہیں، وہ جن کی ماؤں نے اپنے تیرہ ہزار بچوں کو رات کی تاریکیوں میں پولیس کی گاڑیوں میں بٹھا کر نامعلوم جیلوں میں پہنچانے کا منظر دیکھا ہے اور وہ جن کے چار سے پانچ نوجوان روزانہ دہشت گردی کی آڑ میں مارے جاتے ہیں، 2021ء کا انتظار بے صبری سے کر رہے ہیں۔ انہیں امید سی ہے کہ شاید نیا سال ایک نئے پیغام کے ساتھ ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرسکے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کو بات چیت پر آمادہ کر کے ایک کروڑ بیس لاکھ انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچائیں گے۔ ان کی نائب صدر کاملہ ہیرس نے اپنے ووٹروں کے سامنے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے پر بھارت پر دباؤ ڈالنے کا عہد کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نئی انتظامیہ کی ترجیحات میں فلسطین میں قیام امن کا نیا معاہدہ، بھارت اور پاکستان کے بیچ کشمیر پر بات چیت اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی شامل ہوں۔ کم از کم مسلم دنیا میں امریکی شبیہہ کو بحال کرنے کے لیے یہ اقدامات کسی حد تک بار آور ہوسکتے ہیں۔مغربی طاقتوں کی نظریں بھارت کی ایک ارب نفوس کی مارکیٹ پر مرکوز تھیں اور وہ سیکولر جمہوریت میں اپنی سرمایہ کاری میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے مگر 2014ء سے بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان ملکوں کے مالیاتی ادارے خاصے محتاط ہوگئے ہیں اور بھارت میں اندرونی طور پر سکیورٹی کی بگڑتی صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں شورش، وفاقی نظام کی کمزوری، اقلیتوں پر حملے، انسانی حقوق اور اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں بند رکھنے کی کارروائیوں کے پیش نظر بیشتر تھنک ٹینکس کی رپورٹوں میں بھارتی جمہوریت پر کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔پاکستان میں گذشتہ تین دہائیوں میں عالمی سرمایہ کاری نہ ہونے کا سبب ملک کی ابتر سکیورٹی کی صورت حال تھی۔ اب افغان طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے کے بعد امید کی جا رہی ہے اس میں بہتری آئے گی۔ بیشتر عالمی تجارتی اداروں نے یہاں سرمایہ لگانے میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔بعض سیاسی تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے بھارت کشمیر کے معاملے پر اس کو بحالت جنگ میں رکھنے کی کوشش کرے گا۔ البتہ یورپی اور بیشتر اسلامی ملکوں میں اندرونی طور پر بھارت کی موجودہ حکومت کی اقلیت مخالف پالیسیوں کی وجہ سے یہ سوچ گہری ہوتی جا رہی ہے کہ بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے جو سازگار ماحول ہونا چاہیے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں ممکن نہیں ہے۔کشمیر کا مسئلہ اب دو ملکوں تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ چین اس کا ایک اور فریق بن چکا ہے۔ وہ مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت سے پہلے قومی سلامتی کے اپنے مفادات کوملحوظ خاطر رکھ کر ہی آگے بڑھنے کی اجازت دے گا۔انڈین میڈیا کہتا آ رہا ہے کہ چین کے اصرار پر گلگت بلتستان کو پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نئی اسمبلی میں اس پر ایک قرارداد بھی منظور کروائے گی جو وفاقی حکومت کو فوری طور پر اس پر عمل درآمد کروانے میں مدد کرے گی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ قراقرم کی راہداریوں کی سکیورٹی مزید مستحکم کی ہو جائے گی۔چین کی حکمت عملی ہے کہ لداخ میں اس کی ’سلامی سلایسنگ‘ پالیسی قائم رہنے سے بھارت کو اس خطے سے دور رکھنے کا یہ ایک موزوں طریقہ ہے۔ دوسرا اگر بھارت پاکستان کے خلاف لائن آف کنٹرول پر جنگ کا محاذ کھلتا ہے جس کا عندیہ دونوں ملکوں کی جانب سے کئی بار دیا جا چکا ہے تو لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) بھی اس محاذ میں شامل ہوسکتی ہے۔ جنگ کی شکل تکونی بننے سے حالات مزید سنگین ہونے کا امکان ہے۔بھارت نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کرکے چین کو چکمہ دینے کی کوشش کی تھی لیکن جواب میں چین نے لداخ اور اروناچل پردیش میں گھس کر دہلی حکومت کو شکنجے میں ڈال دیا ہے۔بھارت بیک وقت دو ملکوں کے ساتھ محاذ آرائی کبھی نہیں چاہتا ہوگا۔ لداخ میں فوجی تعداد بڑھانے، جدید اسلحہ اور سازو سامان پہنچانے کے باوجود وہ چین کے ساتھ جنگ کرنے سے گریز کر رہا ہے اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر سفارتی مفاہمت کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ چین بھی سفارتی سطح پر جنگ نہ چھیڑنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے کیونکہ وہ لداخ میں اس فوجی پوزیشن پر پہنچا ہے جہاں وہ بھارت کی فوج کو آگے بڑھنے سے آسانی سے روک سکتا ہے اور تبت یا سنکیانگ میں ممکنہ افراتفری کا امکان کم ہے۔بھارت نے شاید پاکستان پر کئی سرجیکل سٹرائیکس کی ہوتیں مگر چین کا لداخ میں داخل ہونا اس میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ اس خطے میں پاکستان اور چین کے بیچ اقتصادی راہداری میں تعاون سے لے کر فوجی شراکت داری بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے اور شاید اسی لیے وہ جنگ کی بجائے ففتھ جنریشن وارفیئر پر اربوں روپے خرچ کرنے لگا ہے۔اندرون جموں وکشمیر میں سال گزشتہ میں کئی اہم منصوبوں پر کام شروع کیا گیا ہے جن کو سال نو میں روبہ عمل لائے جانے کا امکان ہے۔2021 ء میں اسمبلی کے ممکنہ انتخابات سے پہلے ہی جموں و کشمیر کو واپس ریاست کا درجہ دیئے جانے کی امید ہے، جس کا وعدہ مودی حکومت نے حال ہی میں وجود میں آنے والی نئی پارٹی، اپنی پارٹی سے وعدہ کیا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کا فیصلہ اگست میں کیا جائے گا۔ شیخ عبداللہ کو نو اگست 1953 ء میں گرفتار کیا گیا تھا، 15 گست 2019ء کو ریاست کی خصوصی پوزیشن ختم کردی گئی اور سال نو میں ہوسکتا ہے کہ اگست میں ہی ریاست کی بحالی ہو۔واضح رہے کہ اپنی پارٹی میں بیشتر وہ سیاست دان شامل ہیں جو نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک کے ممبر اسمبلی یا اعلیٰ عہدے دار تھے۔ بعض کے خلاف بددیانتی، ناجائز طور پر زمینوں پر قبضے، ٹیکس چوری اور دوسرے جرائم میں منسلک الزامات عائد ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق دوران حراست ان رہنماؤں سے بانڈ لیا گیا ہے کہ وہ اندرونی خودمختاری ہٹانے کے بھارتی حکومت کے فیصلے کے حق میں نئی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کے بدلے میں اسمبلی بنائے جانے کے حق دار ٹھہرائے جائیں گے، جس کے پیش نظر یہ پارٹی بی جے پی کی نمبر2 تصور کی جاتی ہے۔کشمیر کے مختلف اضلاع میں ہزاروں کنال اراضی کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں نئی بستیاں قائم کرنے کے لیے عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور جن میں کشمیری پنڈتوں کے علاوہ فوجی خاندانوں اور غیر کشمیری اور غیر مسلم ان خاندانوں کو بسایا جا رہا ہے جو ڈومیسائل قوانین کے تحت شہریت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ اس اقدام کو مسلم اکثریت کو ختم کرنے کے لیے، غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کرنے کے منصوبے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مشن کو نئے سال میں مکمل کرنے کا پلان ہے۔کیا کشمیری عوام پھر ماضی کی طرح نئے سال میں جلسے جلوس یا احتجاجی تحریکیں چلا پائیں گے۔