جس طرح تاریخ کا معروضی طور پر لکھا جانا ایک مشکل اور جان کو جوکھم میں ڈالنے جیسا کام ہے بالکل اسی طرح تاریخ کو ذاتی عصبیت سے بلند ہو کر پڑھنا ، سمجھنا اور برتنا بھی ا ک کار کٹھن ہے۔یہی سبب ہے کہ تاریخ کے واقعات ،ان کی تفصیلات اور توجیحات مختلف النوع عصبیات کے زیر اثر تشکیل پاتی ہیں ۔ واقعات اور ان کے اثرات کو کس زاویہ ء نگاہ سے دیکھا گیا ہے ، مرتب کیا گیا ہے اور کس لب و لہجہ میں پیش کیا گیا ہے تاریخ کو پیش کئے جانے میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ تاریخ لکھت اور پڑھت میں بھی مقتدر سیاسی ، سماجی اور مذہبی طبقات کے دبائو کا سامنا رہتا ہے یوں تاریخ کسی عہد کی ہو ،کسی علاقے اور زمانے کی ہومکمل سچ کے ساتھ سامنے نہیں آتی۔ یہ ہی وہ مرحلہ ہے جہاں اس عہد کا ادیب، شاعر اور فنکار مستور ہوئے واقعات کو پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے اور پھر ادب اور ادبی فن پارے اس سچائی کو اپنے اندر سموتے ہوئے اس عہد کی تاریخ کا تاریخ کی کتابوں سے بڑھ کر ایک مستند حوالہ بن جاتے ہیں۔تاریخ کے اس تناظر میں ہی ڈاکٹر حنا جمشید نے تحقیق کی مشقت سے اردو ادب سے تاریخ کے کرب کی وہ سچائیاں جمع کی ہیں جن کا تاریخ کی کتابوں میں ملنا محال ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں موجود سچائیاں ادھوری ہوتی ہیں۔ یہ ڈاکٹر حنا جمشید کا داعیہ ہے جسے انہوں نے اپنی اس تحقیق کی بنیاد بنایا ہے۔ان کے خیال میں’’یہ کتاب ادب کے محدب عدسے کی مدد سے اسی آدھے ادھورے سچ کی مکمل بازیافت کی ایک طالبانہ کاوش ہے۔ جس میں اپنی تاریخ کو غیر جانبدارانہ انداز سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ غائر نگاہی کسی مورّخ یا قصہ گو کی دین نہیں ،نہ ہی اس میں کسی تاریخ نگار کے حسن بیان کا اعجاز شامل ہے ۔ بلکہ یہ ہمارے ادب کا وہ بصیرت آموز شعور ہے جس نے تاریخ کو عمیق نظری سے پڑھنے، پرکھنے اور سمجھنے میں مدد دی۔‘‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں رونما واقعات سے ادب اور ادیب کتنا متاثر ہوا ۔ اس کتاب میں اس پر گہری گرفت ہے اور کمال حسن تحریر یہ ہے کہ یہ کتاب خود ایک ادبی تخلیق میں ڈھل گئی ہے۔ جدید تنقیدی ادبی نظریات کے تناظر میں کی گئی اس تحقیق میں ان تمام اہم ادبی متون کا جائزہ اور تجزیہ شامل ہے جو پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ سے متاثر ہو کر لکھے گئے۔یہ تحقیق بلا شبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ادبی مطالعہ ہے ۔ ان کے خیال میں نو تاریخیت ادب کے ذریعہ تاریخ کا غیر متعصب مطالعہ کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اپنے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں: ’’ نئی تاریخیت ادبی متون کے ذریعے تاریخ کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کرنے پر اصرار کرتی ہے ۔ وہ تاریخ کے ان تمام بیانیوں اور کلامیوں کو مسترد کرتی ہے جنھیں جانب دار اور متعصب مورخین نے ایک خاص آئیڈیا لوجی یا مقتدر نظریات کے زیر اثر تشکیل دیا تھا۔نو تاریخیت ایسے تمام متون پر سوال اٹھاتی ہے جن میں صرف طاقتور کی زندگی اور اس کی منشا کو ہی تاریخ کی شکل دی گئی اور کمزور طبقات کی عکاسی سے دانستہ پہلو تہی کی گئی۔ وہ تاریخ کے مقتدر متون اور بیانیوں کے پوشیدہ،کمزور اور دانستہ چھپائے گئے حصوں کو سامنے لانے پر کمر بستہ ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق ڈاکٹر حنا نے اپنی اس تحقیق میں:’’نو تاریخی طریقہ کار اور تکنیک کو انتہائی تخلیقی اور قابل ستائش انداز میں استعمال کیا۔جس کے نتیجے میں ہماری تاریخ کا ایسا بصیرت انگیز اور غیر جانبدرانہ مطالعہ سامنے آیا ہے جو پاکستان ،اس کی عوام اور اس کی شب وروز بدلتی سیاست کے ابعاد کو سمجھنے میں تفہیم کی نئی راہیں کھلے گا۔‘‘ تقسیم ہند کے موقع پر جنم لینے والے المیوں کو مورخ نے اپنے فہم کے زیر اثرتاریخ کی کتابوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں بہت سے پہلو دانستہ یا نا دانستہ بیان نہیں ہوئے لیکن اسی دوران اس دور کے ادیبوں کی تخلیقات میں ، جن میں عصمت چغتائی ، کرشن چندر ، سعادت حسن منٹو،غلام عباس ،قراۃ العین حیدر،انتظار حسین شامل تھے،ان مسائل اور مصائب کی تاریخ کو اپنے اند سمو لیا ہے جو تاریخ نگاروں سے اوجھل رہ گئے یا ان کی واقعیت کی حساسیت اور شدت کو پیش کرنے سے قاصر رہے۔پاکستان بن جانے کے بعد یہاں اقتدار کے لئے جوسیاسی کھیل شروع ہوا اور جس کے نتیجے میں سیاسی، معاشی اور سماجی عدم مساوات بڑھی۔ سیاسی گھٹن ، جبر اور قہر کا ماحول پیدا کیا گیا اور عوام اور ریاست میں مغائرت کی خلیج پیدا ہوئی اور بڑھی وہ سب بھی عوام کا درد اور کرب کو محسوس کرنے والے ادیبوں نے کبھی کھل کر اور کبھی ملفوف انداز میں اپنی تخلیقات میں پیش کرتے رہے۔ ان میں عبداللہ حسین، شوکت صدیقی، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، حبیب جالب، مستنصر حسین تارڑ،احمد فراز، نمایاں شہرت کے حامل ہیں۔تاریخ کے تناظر میں انتہائی عرق ریزی کیا جانے والا اردو ادب کا یہ تحقیقی مطالعہ ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق ’’ یہ ادبی متون اپنے عہد کی تاریخ کے بالمقابل ، تاریخ کا ایسا متبادل موقف پیش کرتے ہیں جو اس عہد کی عصری تاریخ اور طاقت کے مقتدر بیانیوں اور جبرکی چیرہ دستیوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ یہ متون تاریخ کے مقتدر طبقات کے زیر سایہ سیاسی مفادات کے کھیل ، اشرافیہ اور آمریت کے مسلط کردہ بیانیوں اور ان سب کے نتائج میں پیدا ہونے والی ناانصافیوں ، ظلم اور سماجی ناہمواریوں سے نہ صرف پردہ اٹھاتے ہیں بلکہ ان استعماری طاقتوں کی مذمت بھی کرتے ہیں جو لوگوں سے ان کے حق آزادی بھی چھین لیتی ہیں۔ ‘‘ اس تحقیق میں ڈاکٹر صاحبہ کی ترقی پسندانہ سوچ،سماج کی ناہمواریوں پر اضطراب اور انسانی شرف کی بازیابی کی تڑ پ اوج کمال پر ہے ۔اس کی کتابی شکل پاکستان کی تاریخ اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک گراں قدر اثاثہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ بلاشبہ ا س پر تحسین اور پذیرائی کی مستحق ہیں ۔ نوٹ :کتاب کے صفحہ 56 پردرج دو واقعات کی تصحیح ضروری ہے۔1960میں ایوب خان اورمحترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ریفرنڈم نہیں ہوا تھا جیسا کہ کتاب میںدرج ہے ۔ جنوری 1965میں ان دونوں کے درمیان صدارتی انتخاب کے لئے مقابلہ ہوا تھا ۔ا س انتخاب میں بنیادی جمہوریت کے اراکین نے ووٹ دیا تھا اور جو ایوب خان جیت گئے تھے۔کتاب میں 1958میں مارشل لاء کے نفاذکا سبب آئین کی تیاری میں تاخیر بیان کیا گیا ہے جو درست نہیں ۔ آئین تو مارچ 1956 میں نافذ ہوگیا تھا ۔مارشل لاء کے نفاذ کے وقت پاکستان سرزمین بے آئین نہیں تھا جیسا کہ کتاب سے تاثر ملا ۔امید کی جانی چاہیئے۔ اشاعت ثانی میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔