پاکستان تحریک انصاف نے اگست 2018ء میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو کچھ ہی ہفتوں میں بد انتظامی اور مہنگائی بڑھنے کے آثار نظر آنے لگے۔ دو ماہ بعد وزیراعظم عمران خان نے میڈیا پرسنز کے ساتھ نشست رکھنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ گزشتہ حکومتوں کے کارنامے عوام تک پہنچائے جائیں ۔یہ نشستیں سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشتر کی جاتی تھیں۔ تمام نیوز چینلز بھی اس کارروائی کو براہ راست نشترکرتے تھے۔ ہرنشست میں وزیراعظم کی بریفنگ کے بعد صحافی حضرات حکومتی کارکردگی پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتے۔وزیراعظم عمران خان کو یہ سوالات سخت ناگوار گزرتے۔وزیراعظم ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے بالآخر ایک دن کہہ بیٹھے کہ ہماری کارکردگی سے متعلق سوال چھ ماہ بعد کیا جائے۔اینکرز اور ایڈیٹرز حضرات نے چھ ماہ تک صبر کر نے کا فیصلہ کیا۔ کئی چھ ماہ گزرگئے مگر حکومتی کارکردگی میں بہتری کا تصورہی مسخ ہوگیا۔ بدانتظامی ‘بدعنوانی اور مہنگائی نے ہر گزرتے دن کیساتھ ایک سے ایک ریکارڈ بریک کرنا شروع کردیا۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران تو تمام حدیں ہی پار ہوگئیں۔ فیصلہ ساز کنفیوژن جبکہ عوام مہنگائی کے سمندر میں غرق ہوتے جارہے ہیں مگر وزیراعظم نے عوامی مشکلات پر نوٹس لیتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی سخت احکامات صادر کرنا کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت خوردنی تیل کی درآمد پر ڈیوٹی جبکہ کوکنگ آئل اور گھی کی فروخت پر جی ایس ٹی کم کرنے کی منظوری دیتے ہوئے پہلا قدم اُٹھایا۔یہ اقدام خوردنی تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے پیش نظر عوام کو ریلیف دینے کیلئے اٹھایا گیا تھا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزرا ء نے ٹی وی اسکرینوں پر وفاقی حکومت کے عوام دوست فیصلے کے چرچے شروع کردئیے۔ وفاقی حکومت کے فیصلے کے پیش نظر خوردنی تیل کی درآمد سست روی کا شکار ہوگئی۔ مہنگا تیل درآمد کرکے سستافروخت کرنا ممکن نہیں تھا ۔ اب ضرورت اس امر کی تھی کہ فوری طور پر ڈیوٹی اور جی ایس ٹی میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا کہ مارکیٹ میں سپلائی متاثر نہ ہو مگر حکومتی ٹیم اور وزارت صنعت وپیداوار کے ’رنگ بازوں‘ کو اس بات سے غرض ہی کیا تھی۔ دو ہفتے قبل وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نوٹس لیاتو وزارت صنعت نے بتایا کہ گھی ملز ایسوسی ایشن کیساتھ معاہدے کیلئے بات چیت کی جارہی ہے تاکہ جب 50 فیصد ڈیوٹی اور 50 فیصد جی ایس ٹی کم کیا جائے، تو گھی ملز ایسوسی ایشن یہ ریلیف عوام تک لازمی پہنچائے۔ دس روز قبل وزارت صنعت و پیداوار نے گھی ملز ایسوسی ایشن کے ساتھ ایم او یو پر دستخط بھی کرلیے لیکن اسکے باوجود وزارت خزانہ اور وزارت صنعت و پیداوار نے ڈیوٹی اور جی ایس ٹی میں 50 فیصد کمی کیلئے عملی اقدام نہ اٹھایا۔ وزیر خزانہ نے ایک دن وزیراعظم کو بتایا کہ آئی ایم ایف کیساتھ زیر التواء معاہدے کے پیش نظر خوردنی تیل کی درآمد پر 50 فیصد ڈیوٹی جبکہ گھی اور کوکنگ آئل کی فروخت پر50فیصد جی ایس ٹی کم کرنا ممکن نہیں۔ وزیراعظم کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ غریب عوام کا مسئلہ حل کرلیا گیا ہے، وزیراعظم کے حالیہ اعلان کردہ پروگرام کے تحت احساس ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام کے ذریعے مخصوص دکانوں پر عوام کو کم نرخوں پر گھی اور آئل فروخت کیا جائیگا،لہٰذا ڈیوٹیز اور جی ایس ٹی میں اب کمی نہیں کی جائیگی۔یوں وفاقی کابینہ کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں اُٹھا کر پھینک دیا گیا۔احساس ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام کے ذریعے گرینڈ ریلیف کا نوحہ بھی سن لیجئے۔31ہزار 500 روپے تک ماہانہ آمدن کی حامل فیملی کو ایک ماہ کے دوران آٹا‘دالوں اور گھی کی خریداری پر وفاقی حکومت صرف 350روپے ریلیف فراہم کریگی۔ بدانتظامی اور کنفیوژن کی ایک اور داستان بھی جان لیجئے۔ امپورٹ پالیسی آرڈر 2020کے ضمیمہC کے سیریل نمبر10کے تحت 50 سال سے زائد استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد ہے،جس کے باعث پاکستانی شہری استعمال شدہ اور نایاب گاڑیاں در آمد نہیں کر سکتے مگر ایف بی آر کی طرف سے 3 جولائی 2018کو ایس آر او 833(I)2018جاری کیا گیا،جس کے تحت 50سال سے زائد پرانی اور نایاب گاڑیوں اور جیپ کی درآمد پر فی یونٹ 5ہزارڈالر مجموعی ڈیوٹی ادا کرکے گاڑیاں کلئیر کروائی جاسکتی ہیں۔درآمد کنندگان نے وزارت تجارت کا دورازکھٹکھٹایا تو سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کردی گئی۔واضح رہے کہ وزارت تجارت نے یہ سمری وزیراعظم کی ہدایت پرارسال کی تھی مگر اب وفاقی کابینہ نے وزارت تجارت کی کراچی کی بندرگاہوں پر درآمد شدہ نایاب رولز رائس‘ بینٹلے‘فورڈ مستانگ اور چیف رولے کی کاروں کو امپورٹ پالیسی آرڈر کے تحت عائد پابندی سے ون ٹائم چھوٹ دینے کی سمری مسترد کردی ہے۔حیران کن طور پر وفاقی کابینہ کئی مرتبہ امپورٹ پالیسی آرڈر سے استثنیٰ کی منظوری بھی دے چکی ہے مگر اس مرتبہ شاید کنفیوژن آڑے آ گئی۔ کابینہ نے ایف بی آر حکام سے یہ تک پوچھنا گوار نہیں کیا کہ امپورٹ پالیسی آرڈر 2020ء میں50سال سے زائد پرانی کاریں درآمد کرنے پر پابندی عائد ہونے کے بعد 2018ء کا ایس آر او منسوخ کیوں نہیں کیا گیا۔ ادارہ شماریات ہر ہفتے ملک بھر میں بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق سرکاری اعدادوشمار جاری کرتا ہے ۔ اگرچہ یہ سرکاری اعدادوشمارحقیقی مہنگائی سے بہت کم ہوتے ہیں مگر اب مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں کے باعث حکومت سے یہ کنٹرولڈ اعدادوشمار بھی برداشت نہیں ہوپارہے،جس کی وجہ عوام کی حکومت سے بددلی اوربڑھتے ہوئے عوامی غم وغصہ سے متعلق ایک حساس ادارے کی رپورٹ ہے۔ ’رنگ باز‘وزراء نے ایک نیا حل پیش کیا ہے کہ اب ادارہ شماریات ہر ہفتے کے بجائے صرف ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی سے متعلق اعدادوشمار جاری کرے گا۔ وفاقی کابینہ نے پلک جھپکتے ہی اس تجویز کی باضابطہ منظوری دیتے ہوئے ادارہ شماریات کو ہفتہ وار اعدادوشمار جاری کرنے سے روک دیا ہے۔تین سال بعد نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ نئے پاکستان کا ہر باسی پُرانے پاکستان کی تلاش میں نظرآرہا ہے۔ساری روداد بیان کرنے کے بعد نہ جانے تھری ایڈیٹس فلم کا گانا کیوں دماغ میں بج رہا ہے۔ کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے ۔ ۔۔۔سلوشن کا کچھ پتا نہیں؟؟