عصرِ حاضر کے نامور مورخ ولیم ڈلرمپل کی ’دی لاسٹ مغل‘ اٹھارویں صدی عیسوی کے عظیم برطانوی فلسفی اور مدبر سیاستدان ایڈمنڈ برک کے اِس قول پر ختم ہوتی ہے کہ’جو تاریخ سے سبق سیکھنے میں ناکام رہتے ہیں ، وہ ہمیشہ تاریخ کو دہراتے ہیں‘۔ڈلرمپل کی مذکورہ کتاب تیموری خاندان کے آخری چشم و چراغ کی دلّی پر حکمرانی کے آخری چندپُر شورش مہینوں اور ملک بدری کے کچھ برسوں کی المناک داستان ہے۔1857ء کی شورش کو مغربی دنیا بغاوت(Mutiny )جبکہ ہم ’جنگ آزادی‘ قرار دیتے ہیں۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بغاوت تو غلام اپنے آقا کے خلاف کرتے ہیں، رعایا اپنے بادشاہ کے خلاف کرتی ہے اورعسکری تناظر میں دیکھا جائے تو ماتحت اپنے حکامِ بالا کے خلا ف کرتے ہیں۔1857ء میںدِلّی میں ہی سہی، بادشاہ تو بہادر شاہ ظفرہی تھا۔ بنگال اور پنجاب چھِن جانے کے باوجود جسے خود کمپنی بھی ’دلی کا بادشاہ‘ ہی کہتی تھی۔ جس کے دربار میں پیش ہو کراُس کے نمائندے ’نذر‘ پیش کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اسی بادشاہ کے ماتحت ایک vessel کے طور پر کام کرنے والی اِس کمپنی کے ملازمین یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بادشاہ نے ان کے خلاف’بغاوت ‘ کی تھی؟حقیقت تو یہ ہے کہ ’1857ء کی’ میوٹنی‘ دراصل کمپنی کے ’سپاہیوں ‘ کی جانب سے اپنے انگریزافسروں کے نا روا سلوک اور اُن کے مذہبی اقدار سے متعلق غیر حساسیت پر مبنی رویوں کا مقامی ردِ عمل تھی۔معاملہ میرٹھ میںمنگل پانڈے نامی ایک ہندو سپاہی کے ہاتھوں ایک گورے فوجی افسر کی ہلاکت سے شروع ہوا، کمپنی بہادرکی طرف سے اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کی بجائے مزید جابرانہ ہو جانے کی بناء پر بگڑتا ہی چلا گیا۔بغاوت ہندوستان کے طول وعرض میں تعینات کمپنی کی رجمنٹوں میںپھیلی تو ایک روزمنگل پانڈے کی نسبت سے پکارے جانے والے ’پانڈی دستے‘ دلی میں بھی داخل ہوگئے۔ ایک طرف انہوں نے بادشاہ سے بغاوت کی قیادت سنبھالنے کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب دلی میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیا۔پہلے ہی روز قتل و غارت عروج پر پہنچ گئی۔ شہر میںبرطانوی سول افسران کو چن چن کر مارا گیا جبکہ چھائونی میںفوجی افسروں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی ۔ لاتعداد گورے مارے گئے توباقی اپنے اپنے افراد خانہ کو لے کرجان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہو ئے۔ بادشاہ ابتداء میں تو ’بغاوت‘ کی قیادت سے گریزاں رہا، تاہم کچھ ہی روز میں چند شہزادوں نے اُس کے نام پر باغی سپاہیوں کی کمان سنبھال لی۔ایک عرصہ شورش ، لوٹ مار اور قتل وغارت کے بعدشہر ویران ہو گیا۔ شہزادے بغاوت کو کسی منظم کاروائی کی شکل دینے اور شہر کا انتظام و انصرام بحال کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری جانب پنجاب سے تازہ دم دستے دلی کا محاصرہ کرنے پہنچ گئے۔ کئی ہفتوں کی لڑائی کے بعد بغاوت دم توڑنے لگی تو باغی سپاہی دلی شہرکو بادشاہ سمیت بے یارومدد گارچھوڑ کر دریا کے پار نکل گئے۔ کمپنی کے دستے دلی میں داخل ہوئے تو اب لوٹ مار اور قتل وغارت کی باری ان کی تھی۔ غدر کے ابتدا ئی دنوں میں مارے جانے والے گوروں کے پسماندگان سمیت ہڈسن جیسے جرنیل انتقام کی آگ میں اندھے ہو رہے تھے۔چنانچہ ہر دلی والے کو باغی قرار دیتے ہوئے موقع پر گولی مارنے کا حکم جاری ہوا۔شہر میں جگہ جگہ پھانسی گھاٹ بنا دیئے گئے۔ جو مقامی پکڑے جاتے انہیں کسی عدالت میں پیش کئے بنا کھڑے کھڑے لٹکا دیا جاتا۔تین درجن کے قریب شہزادوں کے سر کاٹے گئے۔ شہر لاشوں سے اَٹ گیا۔ جو مقامی بچے ، وہ شہر چھوڑ کر مضافات میں روپوش ہو گئے۔ بادشاہ کو گرفتار کرنے کے بعد قید تنہائی میں ڈال دیا گیا اور ’عالمی محمڈن سازش‘ کے تحت کمپنی کے خلاف ’بغاوت ابھارنے‘ کا الزام لگا کرلال قلعہ کے اندرہی مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔دو ماہ تک میجرہیرئٹ کی سربراہی میں قائم کمپنی کے ملٹری کورٹ نے ’دلی کے باشاہ‘ کے خلاف ’گواہوں ‘کو سنا اور بالآخرہندوستان سے جلا وطنی کی سزا سنائی ۔ کئی معتبرحوالوں کی بنیاد پرعمومی رائے یہی ہے کہ اگر بادشاہ پر کسی سول عدالت میں صاف وشفاف مقدمہ چلا یا جاتا تو اس پر کوئی جرم ثابت نہ ہوتا۔ بلکہ خود انگریزی قانون کی روشنی میں دیکھا جاتا تو بغاوت بادشاہ نے اپنی ماتحت کمپنی کے خلاف نہیں کی تھی بلکہ بغاوت کا ارتکاب کمپنی نے ’دلی کے بادشاہ‘ کے خلاف کیا تھا۔ جب انتقام کی خو اور بقاء کی جبلت ،حواس پر حاوی ہو تو قانونی پوزیشن کو مگر دیکھتا کون ہے؟ صدیوں پہلے والٹیئر نے کہا تھا،’حکومت جب کسی غلط بات پر مُصر ہو تو اسے درست بات بتانا خطرناک ہوتا ہے‘۔1857ء کی گرمیوں میں شروع ہونے والی سپاہیوں کی بغاوت پہلے مرحلے میں چند مقامی واقعات سے پھیل کر’ ہندوستانیوں کی انگریزوں کے خلاف جنگ ‘قرار پائی۔ بعد ازاں جب جہادی جتھے ہندوستانی سپاہیوں سے تعداد میں بڑھ گئے تو یہی جنگ’ محمڈنز کی عالمی سازش‘ کہلائی جانے لگی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ جنگ کے بعد مسلمانوں کو کچل دینے کے حیوانی جذبات اس دور کا ’فیشن‘ بن گئے۔ اسی دور میںپنجاب کے پہلے چیف کمشنرجان لارنس، کہ پنجابی اور پٹھان دستوں کی مدد سے ’پوربی‘ باغیوں کو کچلنے کا کریڈٹ جنہیں دیاجاتاہے، ان چند سر پھرے گوروں میں سے ایک تھے کہ طاقت کے نشے میں چور کمپنی کو جنہوں نے صبر،درگزر، مصالحت، بغاوت کی وجوہات پر غور اور ان کے تدارک کا مشورہ دیا تھا۔چنددرجن گوروں کے بدلے ہزاروں ہندوستانیوںکو بے رحمی سے قتل کئے جانے کے بعد ان کی پکڑ دھکڑ کاسلسلہ مگر عشروںجاری رہا۔کچھ عرصے کے بعد ہندو ئوں کے ساتھ تو اعتماد کا رشتہ بحال ہو گیا، مگرمسلمان زیرِ عتاب ہی رہے۔ ولیم ڈلرمپل کے تجزیئے کے مطابق یہ مسلمانوںکے خلاف ظلم پر استوار امتیازی سلوک کا ہی ردِ عمل تھا کہ 1857ء کی خونریزی کے بعدنا صرف یہ کہ ہندوستانی عوام ہندو،مسلم قومیتوں میں بٹ گئے، بلکہ خود ہندوستانی مسلمان دو واضح دھاروں میںتقسیم ہو گئے۔انہی میں سے ایک دھارے کی شاخوں سے لگ بھگ ایک صدی کے بعد طالبان اور القائدہ جیسی تحریکوں نے جنم لیا۔آج بھی یہ مغربی دنیا کا ناانصافی پر مبنی طرزِ عمل ہی ہے کہ جو عسکری رویوں کی آبیاری کررہا ہے۔ مغربی دنیا مگر آج بھی تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ 7 اکتوبر والے دن عشروں سے ستائے محکوموں نے طاغوتی فوج کے خلاف جو کاروائی کی ہے، اُس کے بدلے میںقابض گروہ کی جانب سے اُن پر توڑے جانے والے انسانیت سوز مظالم اور مغربی دنیا کے سفاک طرزِ عمل کو دیکھ کرایسٹ انڈیا کمپنی کے ان ذہنی مریضوںکی یادتازہ ہو گئی کہ جنہوں نے ’مقامیوں کی بغاوت‘کا سبب بننے والے اسباب کے تدارک کی بجائے مزید جبرو زیادتی بروئے کار لانے کو ترجیح دی تھی۔ یہاں عظیم برطانوی سیاستدان ایڈمنڈ برک کا قول ایک بار پھر دہرائے بغیر چارانہیں کہ’جو تاریخ سے سبق سیکھنے میں ناکام رہتے ہیں ، وہ ہمیشہ تاریخ کو دہراتے ہیں‘۔