مہنگائی، مہنگائی اور صرف مہنگائی،گرمی جوبن پر لوڈ شیڈنگ میں کمی نہ آسکی، وزرا کی طفل تسلیاں اورحکومتی دعوے ۔غریب عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے ۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے بعد نو ماہ کے لئے اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پا گیا۔ جولائی کے وسط میں بورڈ سے معاہدے کی منظوری ہونا باقی ہے۔معاہدہ غریب کی زندگی میں کتنی خوشگوار تبدیلی لائے گا اس ضمن میں تاریخ خاموش ہے تاہم اس کے مہلک اثرات کی داستان بڑی خوفناک رہی ہے۔ قرضے اور میچنگ گرانٹ یا یقین دہانیوں کی بازگشت میںپاکستان کی پہچان بہت سے کلیدی منصوبے جس میں موٹر وے سے لے کے ایئر پورٹ اور بندر گاہ سے لے کے قومی ایئرلائنزاور دیگر ادارے بھی فہرست میں شامل ہیں۔ دوست ممالک کو اونے پونے گروی دئیے جانے کے بعد حکومت کی معاشی حکمت عملی اور تجربہ کار ماہرین اقتصادیات کی قلعی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف  نے اپنی ایک  حالیہ تقریر میںاسٹیل مل اور پی آئی اے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا یہ ادارے ہر سال 600 ارب روپیہ کھا جاتے ہیں جبکہ ان کی افادیت پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔ ا ن اداروںمیں کام کرنے والے گھوسٹ ملازمین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔سوال یہ ہے کہ حالات کا علم ہوتے ہوئے بھی ان اداروں کی خامیوں کا آج تک ازالہ کیوں نہیں کیا گیا۔وزیر اعظم نے یہ اعتراف بھی کیا کہ گزشتہ ستر سال سے ملک کے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ ایسے حالات میں سادگی ہی اس عفریت سے بچا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اپ لوڈ فوٹیج کے مطابق ایک اسسٹنٹ کمشنر ڈیڑھ کروڑ روپے کی گاڑی میں دو، چار عدد صاحبان جی حضور اور ایک عدد بندوق بردار گارڈ کے ساتھ سبزی کی دکان پر صرف پیاز اور ٹماٹر کے نرخ جانچنے کے لئے جائے گا تو قومی خزانے پر کس قدر بوجھ پڑے گا، کبھی کسی نے سوچا؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیراعظم افسر شاہی اور پارلیمان کے ممبران کو دی جانے والی مراعات کے خاتمے کا اعلان بھی فرما دیتے لیکن دریا میں رہ کر مگر مچھوں سے بیر کون لیتا ہے۔ لگتا ہے کہ انتخابات میں پرانے وعدے ایک بار پھرنئے دلکش ریپر میں عوام کو دیے جائیں گے۔ مہنگائی کا جن پہلے سے زیادہ بد مست ہو کر ناچ رہا ہے۔ آٹا ،دال ، گھی اور اشیا ضروریہ کی قیمتیں آسمان پر پہنچ چکی ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سادہ روٹی خریدنا بھی عیاشی لگتی ہے ۔ افسر شاہی کے پاس اہل اقتدار کو خوش کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ۔منڈیوں، بازاروں  اور دکانداروں کے پاس کوئی کیوں کر جائے، ناپ، تول اور غیر معیاری اشیا بک رہی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، غریب کے پاس تو اب  بد دعاوں کا کوٹہ بھی ختم ہو چلا ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ صاف شفاف الیکشن ہی اس بات کی ضمانت ہیں کہ  ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جاسکے۔ دوسری طرف  ایسے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ، اور نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل حسب منشا نتائج دینے میں ناکام ثابت ہو گی۔ تاہم ان اقدامات سے بہت سے سیاست دانوں کے نظریات، وفاداریاں اور ابن الوقتی کھل کر سامنے آگئی ہے جس سے ووٹر نہ صرف  متنفر ہوا بلکہ یہ تہیہ کر چکا ہے کہ ایسے بکائو مال جس نے عوامی امنگوں کی قیمتیں وصول کی ہیں انہیں مسترد کر دیا جائے۔ایسا عوامی ردعمل ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں مزید دشواریاں پیدا کر سکتا ہے۔ اندریں حالات الیکشن کمیشن، کیئر ٹیکر حکومت اور طاقتور حلقوں پر ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ عوامی امنگوں اور حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے انتخابات کو صاف شفاف بنائیں تاکہ ہر سیاسی جماعت اس کے نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کر ے اگرچہ ملکی تاریخ انتخابات اور اس کی شفافیت کے حوالے سے یکسر مختلف رہی ہے۔حکومت غریب عوام کے لئے آبرو مندانہ حل تلاش کرنے میں یکسر ناکام  ہونے کے بعد کس منہ سے  عوام کے پاس جائے گی یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ترسی ہوئی بھوکی عوام کا سیاسی نعروں اور جھوٹے  بیانات سے پیٹ نہیں بھرا جا سکتا۔خبریں عام ہیں کہ وزریروں، مشیروں اور ان کے مصاحبوں کے چونچلے اسی طرح جاری و ساری ہیں جو مجبور عوام کو اکسانے کے لئے کافی ہیں۔ ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو قیاس غالب ہے کہ لوگ عوامی مقامات پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیں۔عوامی حلقے ان اقدامات پر بھی سیخ پا ہیں کہ ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اپنے مفادات کے درجنوں بل پاس کروائے عوامی امنگوں پر پورا اترنے والا کوئی بل پیش نہ کیا جا سکا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو مسند اقتدار پر براجمان ہونے  کے فوری بعد بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کے بہت سے فیصلے ایسے ہیں جو انہیں مستقبل قریب میں ڈراونے خواب بن کر ڈراتے رہیں گے۔وزیر اعظم شہباز شریف کو دوست ممالک کی جانب سے  مالی امدا حاصل کرنے میں بھی بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کی جہد مسلسل کسی حد تک کامیاب رہی۔ خبریں یہ بھی گرم رہیں کہ دوست ممالک نے مالی امدادکی یقین دہانی تو کروادی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی  دیا گیا ’’ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘ ’’اب کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا‘‘ ٭٭٭٭٭