سولہ دسمبر 1971ء کی شام پانچ بجے ریڈیو پاکستان سے جب یہ خبر نشر کی گئی کہ ڈھاکہ میں یک سمجھوتے کے نتیجے میں جنگ بند ہو گئی ہے اور یہ کہ بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہو گئی ہے۔ تو یہ خبر کروڑوں پاکستانیوں کے ذہنوں پر بجلی بن کر گری۔لوگ سکتے کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔سسکیاں بلند ہوئیں، آنسو آنکھوں سے بے اختیار بہنے لگے اور لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دلاسے ، تسلیاں ،امیدیں سب اپنے معنی کھو چکے تھے۔ جناح کا پاکستان ٹوٹ گیا تھا ۔مشرقی بازو جو پاکستان کی اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا آگ اور خون کے بھیانک کھیل کے بعد اب بنگلہ دیش بن گیا تھا ۔یہ سب کیوں ہوا ،کیسے ہوا کون اس کا ذمہ دار ہے اور کس کی غفلت سے یہ سب کچھ ہوا۔یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات ایک میٹرک کے طالب علم کے ذہن میں مبہم انداز میں پیدا ہو رہے تھے مگر وہ کس سے جواب چاہے۔ گھر میں سب سر جھکائے اداس اور خاموش تھے ۔عوام سوگ کی کیفیت میں تھے اور حکمران باقی ماندہ پاکستان کے لئے اپنے اپنے حصے کی جاہ طلبی میں مصروف و مگن تھے۔ باون سال گزر چکے ہیں ۔ مجھے وہ اداس کر دینے والی شام آج بھی اچھی طرح سے یا د ہے ،جو کچھ کتابوں میں پڑھا وہ کس قدر غیر حقیقی تھاکہ بنگالی تھے ہی علیحدگی پسند، شیخ مجیب الرحمان غدار تھا اس کے ثبوت کے لئے اس کے انتخابی منشور کے چھ نکات ہی کافی ہیں اور یہ کہ یہ ایک عالمی سازش تھی جس میں امریکہ، برطانیہ اور روس شامل تھے ۔ مان لیجئے کہ یہ سب کچھ درست تھا تو پھر قومی اسمبلی میں نمائندگی کے لئے پیرٹی کا اصول کیا تھا جب مشرقی پاکستان کی اکثریت کو غیر جمہوری انداز میںمساوی نمائندگی قبول کرنے پر آمادہ کیا گیا ،دستور میں تاخیر کا کون ذمہ دار تھا ۔ بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان قرار دینے میں نو سال کیوں لگے،1954 ء میں جب مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ نے اپنے اکیس نکاتی منشور کی بنیاد پر صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی تھی تو ان کی حکومت کو کیوں نہیں چلنے دیا گیا، مشرقی پاکستانیوں کی شکایات اور مطالبات پر سنجیدگی سے توجہ کیوں نہیں دی گئی۔ قومی انتخابات سے 23 سال تک کیوں گریز کیا گیا اور جب انتخابات ہوئے اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے سادہ اکثریت حاصل کرلی تو اسے تسلیم کیوں نہیں کیا گیا ۔ کیوں سارے فیصلے پاکستان کے مغربی حصے پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ ( فوج اور بیوروکریسی ) غیر جمہوری انداز میں کرتی رہی۔ یہ اور اس سے جڑے بہت سارے سوالات مزیدہیں جو تاریخ کے صفحات پر لکھے جاچکے ہیں۔ عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی میں جس طرح رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ، اس پر مشرقی پاکستان کے لوگوں کا مشتعل ہونا بنتا تھا۔ وہ مشتعل ہوئے انہوں نے احتجاج کیا مگر کوئی شنوائی نہیں کی گئی ۔23 سال بعد انہیں اپنی اکثر یت کی بنیاد پر وفاق میں حکمرانی کا موقع مل رہا تھا جسے مغربی پاکستان کی سیاسی ،عسکری اور انتظامی طاقتیں تسلیم کرنے اسے انکاری تھیں ۔اس انکار کے بعد مشرقی پاکستان کے پاس علیحدگی کے سوا کوئی اور راستہ تھا جسے وہ اختیار کرتے! ہم نے ان کے لئے علیحدگی کے تمام جواز فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ سیاسی بحران کو عسکری طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتائج خوفناک ہی نکلنے تھے سو وہ نکلے۔مشرقی پاکستان میں جب فوجی کاروائی کی گئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے ،جو مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت کے نمائندہ تھے ، یہ کہ کر اس اقدام کی حمایت کی کہ ’’ شکر ہے پاکستان بچ گیا ‘‘ پاکستان متحد رہنے سے تو بچ نہیں سکا البتہ بنگالیوں کی حکمرانی سے ضرور بچ گیا۔ حقائق بہت تلخ ہیں اور تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جب تک انہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ان اسباب و محرکات کو سمجھنا اور ان سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی اہمیت ،ان کے ثقافتی تشخص ،ان کی معاشی ضروریات ا ور جغرافیائی فاصلے کے جبر کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔انہیں جتنی زیادہ توجہ کی ضرورت تھی اس سے اتنا زیادہ ہی اغماض برتا گیا ۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ جو رویہ ابتدا ہی سے روا رکھا گیا اس نے مغائرت اور محرومیوں میں اور شدت پیدا کی ۔ اس وقت کے ایک بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت میںلکھتے ہیں : ’’ ایک روز وزیر خزانہ غلام محمد کے کمرے میں میٹنگ تھی۔ کراچی میں دفتری اور رہائشی ضروریات کے لئے جو عمارتیں اور کوارٹرز تعمیر ہو رہے تھے ،ان کے لئے سینٹری کا سامان درآمد کرنے کا مسئلہ در پیش تھا ۔ میٹنگ میں چار وزیر اور کچھ افسر شریک تھے ۔ وزیروں میں سے ایک نے جس کا تعلق مشرقی پاکستان سے اور ان کے پاس امور داخلہ، اطلاعات اور تعلیم کا چارج تھا ، نے تجویز پیش کی کہ اگر اس سامان میں سے کچھ حصہ ڈھاکہ کے لئے بھی مخصوص کردیا جائے تو مناسب ہوگا اس تجویز پربڑی ہنسی اڑی ۔ کسی نے کہا ڈھاکہ میں کوئی خاص تعمیری کام شروع نہیں ہوا اس لئے وہاں پر اس سامان کی ضرورت نہیں ہے ۔کسی نے کہا جو سامان وہاں جائے گا وہ لازمی طور پر اسمگل ہو کر کلکتہ پہنچے گا ۔ ایک صاحب نے مذاق ہی مذاق میں یہ پھبتی اڑائی کہ بنگالی لوگ تو کیلے کی گاچھ میں بیٹھ کر رفع حاجت کرنے کے عادی ہیں وہ ابھی سے کموڈاور واش بیسن لے کر کیا کریں گے ۔شہاب صاحب مزیدید لکھتے ہیں کہ کچھ بحث و تمحیص کے بعد اس وزیر کی بات مان لی گئی اور سامان کا کچھ حصہ ڈھاکہ کے لئے بھی مخصوص کر دیا گیا مگر بد مزگی کے ساتھ۔‘ ‘ معاشی عدم مساوات ، سیاسی اجنبیت اور انتظامی فیصلوں میں عد م شرکت کے باعث انہیں علیحدگی کی طرف تو پاکستان کی اس وقت کی حکمران قوتوں نے ہی دھکیلا تھا ۔ اسے تسلیم کیا جانا چاہیئے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک بڑا المیہ تھی مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ اس سانحہ سے فیصلہ سازوں نے سیکھا کچھ نہیں۔آئینی تقاضوں سے انحراف کی روش آج بھی اسی طرح جاری ہے ۔ جمہوریت کے نام پر تمام غیر جمہوری اقدامات آج بھی کئے جارہے ہیں۔ انتظامی سطح پر ظلم ، سیاسی ناانصافی اور معاشی عدم مساوات کے رویوں نے آج بھی ریاست کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے ۔ آج بھی حکمران عوامی احساسات سے ، ان کی مشکلات سے اور ان کے سیاسی رجحانات سے بے نیاز ہیں ۔ حکومت اور اقتدار کے معاملات میں آج بھی عوام کی شرکت کو غیر موئثر رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔وقت کی رفتار تیز بہت تیز ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی اور ریاستی ادارے حالات کی حساسیت اور سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے درست سمت قدم بڑھائیں ۔آئین کو رہنما بنائیں، جمہوریت کو زاد راہ اور ایک خوشحال ، پر امن اور مستحکم پاکستان کی جانب سفر کریں۔ شائد کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات !!