کئی دوستوں کا خیال ہے میرے کالم میں خبر زیادہ ہوتی ہے اور تبصرہ کم، تو اس لئے ان کالموں کو خبروں کے صفحات میں چھاپنا چاہیے۔ مجھے ان دوستوں کے خیالات سے کوئی اختلاف نہیں اور میں یہ فیصلہ اپنے اخبار کے ایڈیٹر اور ان کے معاونین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ جہاں بہتر سمجھیں چھاپ دیں۔ میں کچھ کالم اپنی خبروں کی بنیاد پر لکھوں گا اور کچھ تبصروں پر۔ آج کے کالم میں دونوں ہی شامل ہوں گے۔ کچھ چیزیں چند دنوں میں نظر سے گزریں اور میں اس بات پر سوچ میں پڑ گیا کہ وہ ہمارے ٹی وی چینلز پر کیوں نظر نہیں آئیں۔ مثلاً تقریباً ایک ہفتہ قبل ایک ویڈیو یو ٹیوب پر دیکھی جس میں یہ کہا گیا کہ میڈیا کے لوگوں کے ہر دلعزیز جناب ملک ریاض لندن کی سڑکوں پر گاڑی کے باہر نظر آئے اور اس گاڑی کے پاس جناب شہزاد اکبر جوعمران خان صاحب کی احتساب کی ٹیم کے سب سے تیز بائولر ہیں بھی موجود تھے۔ کیونکہ ویڈیو ز دورسے کوئی خفیہ ہاتھ بنا رہا تھا تو آواز سنائی نہیں دے رہی تھی مگر یہ کہا گیا کہ ملک ریاض یا شہزاد اکبر کچھ بریف کیس گاڑی میں رکھ رہے تھے یا ان کا کوئی ساتھی تھا۔ ویڈیو کا مقصد یہ تھا کہ یہ تاثر دیا جائے کہ کچھ لین دین ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ناممکن ہے۔ مگر اس ویڈیو کے تقریباً چار طرف سے لے گئے شاٹ واٹس ایپ اور یو ٹیوب پر پھیلائے گئے۔ ہمارے ٹی وی چینلز نے کوئی زیادہ لفٹ نہیں دی۔ سب کو معلوم ہے کہ ملک ریاض بیمار ہیں اور لندن میں علاج کے لئے گئے ہوئے ہیں، مگر یہ بھی سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے انہیں 460ارب روپے واپس کرنے کا حکم دے رکھا ہے اور وہ اس حکم پرعمل کر رہے ہیں۔ آج تک عمران خان اور ان کی حکومت کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ ان کے ملک ریاض اور ان کے بزنس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا تو یہ ویڈیو کافی عجیب سی لگ رہی تھی۔ اب یہاں سے خبر شروع ہوتی ہے۔ میں نے اپنے صحافتی تعلق کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کے دفتر میں اہم افراد سے معلوم کرنے کی جب کوشش کی کہ کیا انہوں نے اور خود وزیر اعظم نے یہ بیرسٹر شہزاد اکبر کی لندن میں کارروائی دیکھی ہے اور ان کا کیا کہنا ہے تو معتبر ترین ذرائع سے پتہ چلا کہ وزیر اعظم کے دفتر کو سب معلوم ہے اور ان ملاقاتوں یا ویڈیو میں کوئی مشکوک کام نہیں ہو رہا بلکہ شہزاد صاحب لندن میں ملک ریاض کی مدد کر رہے ہیں تاکہ وہ برطانیہ سے جو 450ارب روپے انہیں ادا کرنے ہیں وہ پاکستان بھیج سکیں۔’’کیا‘‘ یہ بھی انکشاف ہوا کہ ملک صاحب کو برطانیہ سے پاکستان رقم کی منتقلی میں لندن کی حکومت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ یہ معلومات میرے لئے کافی حیرت انگیز تھیں کیونکہ ان کا تجزیہ کئی طرح سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہ تو ثابت ہوا کہ پرانی حکومتوں کی طرح جناب ملک ریاض اب عمران خان کی حکومت میں بھی کافی ان ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سب کام چھوڑ کر احتساب کے ہیڈ ماسٹر ان کی مدد کے لئے لندن تشریف لے گئے ہیں اور وہاں ملاقاتیں ہو رہی ہیں کہ کس طرح اربوں روپے پاکستان بھیجے جائیں۔ ویسے یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں تھا کیونکہ رقم ٹرانسفر کرنے کے دنیا کے چند بڑے بڑے ماہرین تو خود نیب اور پاکستانی حکام کی تحویل میں ہیں تو یہ ٹی ٹی بھیجنے کے طریقے تو سب کو معلوم ہی ہیں۔ ملک ریاض کوئی بے وقوف آدمی تو نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم پر دودھ والے یا چوکیدار کے نام اربوں بھیج دیں۔ وہ باقاعدہ قانونی اجازت لے کر برطانیہ یا کہیں اور سے رقم روانہ کریں گے اور اگر انہیں کوئی باہر کے ملک کی حکومت ایسا آسانی سے نہیں کرنے دیتی تو پھر ان کے پاس سپریم کورٹ میں یہ کہنے کا اختیار یا جواز ہو گا کہ رقم کی ادائیگی میں دیر کیوں ہوئی۔ تو ایک طرف وہ اچھے بچے بھی بن گئے اور دوسری طرف پیسے بھی اپنے پاس ہی رہے۔ ان حالات میں تو حکومت پاکستان کو پریشان ہونا چاہیے اور شہزاد اکبر کو لندن جا کر ان کی مدد کرنا چاہیے۔ مگر ان کہانیوں میں صاف گوئی کم ہے اور چکر بازی زیادہ۔ ایک تو یہ حقیقت ہے کہ عدالت عالیہ نے انہیں 460ارب یک مشت جمع کرنے کا حکم تو نہیں دیا۔ قسطوں میں اور کئی سال میں یہ رقم دینی ہے اس لئے دو چار ارب ماہوار ملک ریاض کے لئے کوئی بڑی بات نہیں لگتی۔ الغرض کہانی اس طرف جاتی نظر آ رہی ہے کہ کچھ ہی ہفتوں یا مہینوں میں ایک تصویر وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہو گی جس میں ملک ریاض عمران خان کے ساتھ اس تاریخی لال رنگ کے صوفے پر براجمان ہونگے جہاں آج کل بیٹھنے والوں کی ایک لمبی قطار لگی ہے۔ پھر اندر کھاتے کیا ہوتا ہے یہ تو معلوم نہیں مگر میڈیا کو اور ہمارے دوستوں کو سارے ایرئیل اور انٹینا الرٹ رکھنے پڑیں گے جس طرح یہ 208ارب گیس ٹیکس کے کیس میں ہوا۔ اگر میڈیا شور نہ مچاتا تو صدارتی آرڈی ننس تو جاری ہو ہی چکا تھا مگر عمران خان نے اچھا کیا۔ مسئلہ اس لئے بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے کہ نیب اور احتساب کے نرغے میں بے شمار لوگ اور بڑے بڑے لوگ آ چکے ہیں، مثلاً پورا شریف خاندان ‘ آصف زرداری اور ان کے چیلے چانٹے‘ بڑے بڑے بزنس مین، جن میں میاں منشا سے لے کر اقبال زیڈ احمد ‘ خاقان عباسی اور ملک ریاض پر تو اب دبائو رہا ہے کہ حکومت میں جو لوگ کچھ دامن پر داغ لئے بیٹھے ہیں ان کی طرف بھی نظر کرم ضروری ہو گئی ہے۔ اگر بھارت کا مودی ساری توجہ کشمیر کی طرف نہ گھسیٹ لیتا تو کام بہت تیزی سے شروع ہو چکا ہوتا۔ اب بقول نواز شریف خلائی مخلوق بھی مصروف ہو گئی ہے اور جتنے بڑے بڑے لوگ کچھ لو اورکچھ دو کے لئے تیارہو گئے تھے اب ذرا رک گئے ہیں کہ مودی نے جو ہماری خلائی مخلوق کو پھنسا لیا ہے تو شاید ان ملزموں اور مجرموں کی بھی کہیں ضرورت نہ پڑ جائے اور بشکریہ مودی ان کی زندگی ذرا آسان ہو جائے۔ شاید اسی لئے نیب کے قوانین میں لمبی چوڑی ترمیمات کی جا رہی تھیں۔مگر اب شاید عمران خان صاحب کو مزید ایکٹ یو ٹرن لینا پڑے اور ہمارے دوست فروغ نسیم کو کوئی دھکا نہ لگ جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ احتساب تو ہونا چاہیے اور ہو رہا ہے۔ لوگ خوش ہیں مگر یہ اپنے لوگوں کے لئے ڈنڈی مارنے کا کام ٹھیک نہیں۔ اپنے دو چارکو عمران خان صاحب پھڑکا دیں پھر سب کام سیدھے ہو جائیں گے۔