پرانے بادہ کش ایک ایک کر کے اٹھتے جاتے ہیں اور ان کے اٹھنے سے جو جگہ خالی ہوتی ہے اسے پر کرنے والا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ فہمیدہ ریاض جنہوں نے اپنی بے باکانہ شاعری سے ایک زمانے میں ادبی دنیا میں جو طوفان اٹھایا تھا، اپنی عمر طبعی پوری کر کے پیوند خاک ہوئیں۔ یہ افسوس کی بات تو تھی ہی لیکن اس سے زیادہ غم کی بات یہ بھی ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے شہر لاہور میں ان کی نماز جنازہ میں صرف تین ادیب و شاعر شریک ہوئے۔ فہمیدہ ریاض کی عمر کا بڑا حصہ کراچی میں گزرا۔ ان کے مراسم و تعلقات یہاں کے ادباء و شعراء سے زیادہ رہے۔ شعر و سخن سے ہٹ کر بھی ان کی شخصیت متنازع رہی۔ جنرل ضیاء الحق نے جب ملکی قوانین کو اسلامیانے کے اقدامات کا اعلان کیا تو فہمیدہ ریاض اور احمد فراز نے خود ساختہ جلا وطنی کا فیصلہ کیا۔ فراز لندن سدھارے اور فہمیدہ نے بھارت کا رختِ سفر باندھا۔ وہاں ان کی سرگرمیوں پر بھارتی مسلمانوں میں بے چینی پھیلی کہ ایک پاکستانی شاعرہ اپنے ملک اور اس کی دینی اقدار و روایات کا غیر مسلموں کے سامنے مذاق اڑانے کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اسی زمانے میں ہم نے معروف شاعر و نقاد سلیم احمد کا انٹرویو کیا تھا اور پوچھا تھا کہ اگر فراز اور فہمیدہ اپنے ملک آنا چاہیں تو کیا انہیں آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ خصوصاً ایسی صورت حال میں جب کہ ان کی سرگرمیاں ناموسِ وطن کے خلاف ہیں۔ ایک طبقہ آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ فراز و فہمیدہ مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف احتجاجاً ملک چھوڑ گئے تھے حالاں کہ حقیقت اس کے برخلاف تھی۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد پہلی کابینہ بنی تو اس میں پی این اے اور جماعت اسلامی کے رہنما جناب محمود اعظم فاروقی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے۔ ان ہی دنوں پاکستان ٹیلی وژن پر فاروقی صاحب ہی کی زیر صدارت ایک مشاعرہ ہوا تو اس مشاعرے میں احمد فراز، کشور ناہید اور غالباً فہمیدہ ریاض نے بھی شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔ اگر مارشل لاء سے یہ لوگ بیزار ہوتے تو سرکاری ٹی وی کے مشاعرے میں شریک ہی کیوں ہوتے۔ جنرل ضیاء کے اقتدار کے خاتمے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو فراز و فہمیدہ وطن واپس لوٹے اور انہیں ان کی بھٹو دوستی اور جمہوریت پسندی کے صلے میں سرکاری عہدوں سے نوازا گیا۔ چوں کہ ہر دو شعرأ اب اس دنیا میں نہیں تو پرانی باتوں کو دہرانا اچھا نہیں لگتا اور ویسے بھی سلیم احمد کے انٹرویو میں ایک ناپسندیدہ سوال کرنا فہمیدہ ریاض کو اتنا برا لگا کہ وطن واپس آ کر انہوں نے آصف فرخی کے رسالے ’’دنیا زاد‘‘ میں اس خاکسار کے خلاف ایک نہایت توہین آمیز خط چھپوایا اور جب میں نے اپنے شعبے کے مشاعرے میں انہیں بطور شاعرہ مدعو کیا تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ انہیں جانے کس نے یہ باور کرا دیا تھا کہ ان کے بھارت میں پناہ لینے کے دنوں میں اس ناچیز نے کوئی ایسا مضمون لکھا تھا کہ جس میں وطن واپسی پر ان کے ساتھ ناروا سلوک اور نامناسب برتائو کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ میں نے انہیں بہت وضاحت پیش کی کہ سلیم احمد سے انٹرویو میں ایک سوال کرنے کے علاوہ کسی بھی اشتعال انگیز مضمون لکھنے کا مرتکب نہیں ہوا مگر انہیں یقین نہیں آیا۔ بہت بعد میں شعبے کے چیئرمین رہتے ہوئے ایک اور مرتبہ میں نے ڈاکٹر فاطمہ حسن کے ذریعے انہیں مشاعرے میں بلانے کی کوشش کی تو شاید ان کا غصہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور وہ نہایت اہتمام سے مشاعرے میں آئیں اور اپنے کلام سے طلباء و طالبات کو مستفیض کیا۔ شاعرہ تو وہ اچھی تھیں ہی، نثری ادب میں جنس جیسے ’’شجر ممنوعہ‘‘ کو عصمت چغتائی نے جس طرح موضوع بنایا اور متنازعہ قرار پائیں ویسے ہی شعری ادب میں فہمیدہ ریاض نے اپنی بعض بے باکانہ نظموں سے ایک طوفان اٹھایا تھا۔ اب جب کہ معاشرہ آزاد روی کی طرف چل پڑا ہے اور بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلموں میں جیسے اشتہاانگیز مناظر دکھائے جاتے ہیں اور اچھے بھلے شریف گھرانوں میں بھی ان منظروں کو اہل خانہ کے ساتھ دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ مگر اب بھی مجھ میں ہمت نہیں کہ فہمیدہ ریاض کی ایسی بے باکانہ نظموں کی کوئی لائن نقل کر سکوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسی نظمیں کہنے کا مقصد توجہ حاصل کرنا اور شعر و ادب کی دنیا میں شہرت بٹورنا تھا یا اس آنے والے دور کا راستہ ہموار کرنا تھا جس میں جنس کے حوالے سے ہر قسم کے جذبات کے اظہار کے لیے بے باکی کو عام کرنا تھا۔ یہ بات اور بھی تعجب خیز ہے کہ ’’بدن دریدہ‘‘ جیسے شعری مجموعے کی شاعرہ نے آخری عمر کا بڑا حصہ مولانا روم کی فارسی شاعری کے ترجمے میں گزارا۔ جب جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ قویٰ بھی مضمحل ہو جاتے ہیں تو آدمی پر زندگی اور کائنات کی دوسری بڑی حقیقتیں کھلنے لگتی ہیں۔ فہمیدہ ریاض میں ایک بڑی خوبی تو بہر حال تھی کہ ان کی زندگی منافقت اور مداہنت سے بڑی حد تک پاک رہی۔ انہوں نے جو کہا اور جو لکھا ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ شعرا و ادبا تو ویسے بھی تخلیقی اظہار میں آزاد ہوتے ہیں اور عریاں و فحش نگاری کا مسئلہ تو دنیا کی اکثر بڑی زبانوں میں زیر بحث رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ اکثر صورتوں میں عدالتوں نے ادیبوں کے حق ہی میں فیصلہ دیا ہے۔ فہمیدہ ریاض کو اپنی زندگی ہی میں ایک سخت صدمے سے گزرنا پڑا۔ امریکہ میں مقیم ان کا بیٹا ڈوب کر ہلاک ہوا۔ اس صدمے سے فہمیدہ ٹوٹ کر رہ گئیں۔ لیکن ادب ان کی پناہ گاہ تھا اور جلد ہی انہوں نے غمناک جذبات پر قابو پا کر نثری ادب کی طرف توجہ دی اور خوب اور بہت خوب لکھا۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اردو ادب میں فہمیدہ ریاض جیسی جرأت مند شاعرہ اور ادیبہ اب کوئی دوسری نہ ملے گی۔ اس ناچیز سے ان کی ناراضگی بھی ان کے عمدہ پن کا اظہار تھا۔ انہوں نے اپنی ناراضگی نہ چھپائی اور جو کچھ جذبات تھے اس کا برملا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں اور غلطیوں سے صرفِ نظر کرے(آمین) ایک ایسے زمانے میں جو علم و ادب کے لیے ناسازگار ہے، فہمیدہ ریاض کی اس دنیا سے رخصتی افسوسناک واقعہ ہے۔ پرانے بادہ کش اٹھتے جاتے ہیں۔ ان کی جگہ خالی ہوتی جاتی ہے اور کوئی اسے پر کرنے والا نظر نہیں آتا۔ یہ صورت حال ان کی موت کو اور غمناک بنا دیتی ہے۔