سقوط سلطنتِ عثمانیہ کے بعد عرب قوتوں نے سیاسی طور پر آزاد ہونے کی جو تحریک چلا رکھی تھی، اس میں یہ طے پایا تھاکہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب علاقوں کو خود مختار بنا دیا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ صیہونیوں نے اپنی مخصوص ریاست قائم کرنے کے لیے جو مطالبہ پیش کر رکھا تھا دنیا اس کی مخالفت کرتی لیکن پہلی جنگِ عظیم سے قبل 2600 یہودی فلسطین میں آباد تھے مگر صلیبی جنگوں کے خاتمے کے بعد بہت سے عرب علما کو پھانسیاں دی گئیں۔ بہت سوں کو جلا وطن کیا گیا۔ تھیوڈرہرزل جو صیہونیت کا بانی تھا کے مرنے کے بعد شائم وائز مین نے اس کی عملی پالیسی قائم کی۔ تب سے لے کر آج تک فلسطینیوں کو اپنے وجودیت کی صورتِ حال کا جو سامنا ہے وہ نہایت بھیانک ہے۔ غزہ بدستور جارحیت کے نشانے پر ہے۔ فلسطینی اور مشرقِ وسطیٰ کی دوسری ریاستوں میں جہاں مسلمان اور عرب بھائی بہنیں موجود ہیں ان کے بیچ مؤاخات کا رشتہ تو کہیں ضرور ہے۔ مگر اس اخوت کے رشتے پر بھی شک کی چھاپ لگی ہے۔ پچھلے دنوں میں نے فلسطینی ادیب غسان کنفانی کے ناولٹ ’’رجال فی الشمس‘‘ کا اردو ترجمہ ’’دھوپ میں لوگ‘‘ پڑھا۔ اس کے مرکزی کردار کو ایک ٹینکر کے خالی پیٹ میں بٹھا کر کویت سمگل کیا جا رہا تھا۔ وہاں دو اور پناہ گزین بھی تھے۔ ٹینکر جب کسٹم کی سرحد کی چوکی پر پہنچتا ہے تو ان تینوں پناہ گزینوں کو ان سے چھپانے کے لیے ٹینکر کے پیٹ کا ڈھکنا بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ دھوپ کی حدت اور کسٹم والوں سے بحث کی طوالت سے دم گھٹنے کی وجہ سے تینوں آدمیوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ وہ تینوں آدمی کسی کو بتا بھی نہیں سکے کہ ان کی موت دھوپ کی وجہ سے ہوئی اور گمنامی کی ناگہانی موت ہوئی۔ اس ناولٹ میں غسان بتاتا ہے کہ فلسطینیوں کو جس بنیادی جدوجہد کا سامنا ہے وہ کوئی تخیلاتی چیز نہیں بلکہ ایک وجودیت کی جیتی جاگتی ضرورت ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھی فلسطینیوں کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ غسان کنفانی 1936 میں پیدا ہوا اور 1972 میں اسرائیلی اسے دھوکے سے موت کے گھاٹ اْتار دیتے ہیں۔ آج بھی غزہ میں لوگوں کو صرف اور صرف تھکا تھکا کر مارا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں پر حملے اور گھیراؤ ہو چکے ہیں۔ وہاں کے مقامیوں کو چار گھنٹے کی مہلت دی جاتی ہے کہ جنوب سے شمال کی طرف چلے جائیں۔ بھلا چار گھنٹوں میں کوئی کتنا چل لے گا اور وہ بھی دھوپ میں۔۔۔ بہت سے بوڑھے اور بیمار اسی پاپیادہ قافلے کا حصہ ہوتے ہوئے چل بھی نہیں پاتے کہ ان پر حملے ہو جاتے ہیں۔ فلسطینی آج بھی اپنے وجود کی سزا کاٹ رہے ہیں۔آج وہاں بیشتر زندہ انسان لاشے بن چکے ہیں۔بین الاقوامی طور پر دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے کے متعلق یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی ایک اپنی شناخت ہے۔لیکن دوسری طرف غزہ میں انسانیت کے خلاف ظلم جاری وساری ہے۔غزہ کھنڈر بن چکا ہے جبکہ 1967ء کی جنگ کے بعد وہاں کی سرحد کے مطابق آزاد فلسطینیوں کے دل آج بھی اپنی دھرتی کے نیچے دھڑکتے ہیں۔ فلسطینی جو سوچتے ہیں، جو کرتے ہیں، جو وہ کہتے ہیں وہ سب ان کی فلسطینی شناخت کا حصہ ہے۔ فلسطینی اس ظلم و ستم جس میں 75 سالوں سے گرفتاریاں جلاوطنیاں اور مظالم شامل ہیں سہتے سہتے اب تو فلسطین کا سارا رنگ ہی لہو رنگ ہو گیا ہے۔وہاں کا آسماں دھواں دھواں ہو گیا۔ عمارتیں کھنڈر بن گئیں۔ فلسطین کا ادب اٹھا کر دیکھیں تو وہ لوگ اپنے ’’مزاحمتی ادب‘‘ پر نازاں ہیں۔ جس میں فلسطینی بتاتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہیں۔ ہمارے بھی کچھ خواب ہیں۔ ہماری بھی اْمنگیں ہیں۔ فلسطین کی ذرخیز زمین جہاں سینکڑوں سال پرانے زیتون کے درخت ہیں اس زمین نے ادب کے بڑے بڑے ہیرے پیدا کیے۔ 1960ء کے عشرے کے اواخر میں نامور شاعر محمود درویش کی نظم ’’شناختی کارڈ‘‘ نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ نظم کچھ یوں ہے: لکھو! کہ میں ایک عرب ہوں اور میرا شناختی کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے میرے آٹھ بچے ہیں اور نواں بچہ گرما کے بعد تولد ہو گا کیا تم غصہ تو نہیں کھا گئے؟ لکھو! کہ میں ایک عرب ہوں میں اپنے ساتھی کارکنوں کے غضب کا شکار ہوتا ہوں میرے آٹھ بچے ہیں میں انہیں روٹی، کپڑا اور کتابیں مہیا کرتا ہوں اپنی زمینوں سے میں تمہارے در سے خیرات نہیں مانگتا نہ ہی میں تمہارے ایوانوں میں خود کو جھکاتا ہوں کیا تم غصہ تو نہیں کھا گئے؟ لکھو!کہ میں ایک عرب ہوں /میرا بغیر عنوان کے ایک نام ہے/میں صابروشاکر ایسے ملک کا باسی ہوں /جہاں لوگ مشتعل رہتے ہیں /کہ وقت سے پہلے ہی میری جڑیں نوچی جاتی ہیں /میرا باپ کھیتوں میں ہل چلاتا تھا/میرا دادا دہقان تھا لکھو!/کہ میں ایک عرب ہوں /تم نے میرے آبا کے باغ چْرائے ہیں /اور وہ زمینیں جو میں نے کا شت کی/اپنے بچوں کے ساتھ/تم نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا/سوائے ان ملبے کے ڈھیروں کے اس نظم میں آلام کی وہ داستان بیان کی ہے جو آج اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔اس نظم میں فلسطینیوں کا وجود جس خطرے کی زد میں تھا، وہ آج دنیا کی نظروں کے عین سامنے ہے۔ مگر فلسطینی آج بھی پر امید ہیں۔ پہلے تو وہ پناہ گزین تھے مگر آج لاشے بن چکے ہیں۔ بچے کھچے فلسطینی اب دیکھیں کہاں کہاں پناہ لینے جائیں گے؟ مشرقِ وسطیٰ کے پائیدار امن کے حل کے لیے اس مسئلے کا حل ناگزیر ہے۔فلسطین کی فضاؤں میں دْکھ اور ظلم گْھلاہے۔ ہواؤں میں انسانی گوشت کے ٹکڑوں کی بْوجمی ہوئی ہے۔ مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ ان کے نیچے بھی لوگ اپنے پیاروں کے لاشتے ڈھونڈ رہے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے!