اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے فاٹا ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقوں فاٹا اور پاٹا میں فوج کے زیر حراست افراد کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔5رکنی لارجر بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاق اور صوبائی حکومت کی نظر ثانی درخواستوں اور مذکورہ علاقوں میں فوج کو سول اختیارات دینے کے قانون کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے نام لئے بغیر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بنچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ بینچ میں شامل ایک جج کی موجودگی میرے لیے بے چینی کا باعث ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا یہ آپ کا ذاتی مقدمہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا مقدمے میں زیر حراست لوگوں کے حقوق کا سوال ہے ۔عدالت نے اٹارنی جنرل کا اعتراض مسترد کر کے انکو حکم دیا کہ فاٹا میں موجود حراستی مراکز اور ان کی موجود قیدیوں کی فہرست آج تک فراہم کریں اورآبزرویشن دی کہ یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گنتی مکمل ہونی چاہیے ،کوئی قیدی کم نہ ہوجائے ،اگر ان افراد کو زیرحراست رکھنے کا قانون درست ہوا تو حکومت جانے اور قیدی، لیکن اگر حراست غیر قانونی ہے تو پھر فیصلہ عدالت کرے گی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہافوج بلائے جانے کے قوانین کے حوالے سے تیاری کر کے آئیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آنے والی فوج کن اختیار کے تحت کام کرتی ہے ؟ ،کیا کسی کو حراست میں رکھنے کا حکم صوبائی انتظامیہ کے علاوہ آرمی کا کوئی افسر بھی دے سکتا ہے ؟۔24 گھنٹے کے بعد قیدی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے جبکہ دہشتگردی کے کیسز میں یہ مدت 3 ماہ ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آنے والی فوج سول انتظامیہ کے اختیارات سلب نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکیا حراستی مراکز فوج کو طلب کرتے وقت بنائے گئے تھے ؟۔ وکیل نے بتا یا کہ حراستی مراکز 2011 کے قانون کے تحت بنائے گئے تھے ،جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا صوبائی حکومت کا قانون بظاہر آئین سے متصادم ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی کو حراست میں لینے کیلئے اجازت بھی درکار ہے ؟ سرکاری وکیل نے کہا گورنر یا کوئی مجاز افسر حراست میں لینے کی اجازت دے سکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا ملک میں آئین بھی ہے قانون بھی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ مدد کیلئے آنے والے کی طاقت ہی چلتی رہے ، گورنر کس کے کہنے پر کسی کو حراست میں لینے کا حکم دے سکتا ہے ؟ ،آرٹیکل 247 کو پچیسویں ترمیم میں ختم کر دیا گیا۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ اتنی مہلت نہیں دیں گے کہ قیدیوں کو منتقل کیا جا سکے ۔ مزید سماعت آج تک ملتوی کردی۔