گندم کے سرسبز وشاداب کھیتوں میں چہکتے ،اڑتے،جگتے تیتر کا شکار ہے جس کے لیے دو شکاری گھرسے نکلے، ایک کے کندھے پر جال ہے اور دوسرے کے ہاتھ میں بندوق ۔ جال والے نے جال بچھایا ، اس سے پہلے کہ شکار جال میں پھنس جائے ،بندوق والے نے اسے کھیت کی منڈیر پر جال کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر اپنی گولی کا نشانہ بناڈالا۔ انصاف ، اصول ، عالمی قوانین، دوسری قوموں کی آزادی کا احترام یہ سارے خیالات قابل قدر ہونے کے باوجود یہ بات ہر کسی کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ قوت وطاقت کے اپنے اصول اور قوانین بھی ہوا کرتے ہیں، کمزور ہمسایوں کو اپنی بقاء اور آزادی کے لیے ان اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، اصول اور قوانین ایسی ذمہ داری ہیں جو سب کے نبھانے سے نبھ سکتی ہے، اگر امریکا اور اس کے حواری یورپ کویہ حق دے دیا جائے کہ ان پر کسی اصول اور عالمی قانون کا اطلاق نہ ہو، اور باقی دنیا ان کے اشارہ ابرو پر ناچتی رہے ،یہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا ۔ ہم نے اپنی دیہاتی زندگی میں بار ہا دیکھا ہے ، کسی بڑے زمیندار کا بگڑا ہوا لاڈلا بیٹا اپنے گاؤں اور قرب وجوار میں ظلم وجبر سے حشر اٹھائے رکھتا ہے ، آخر ایک دن کوئی بہت ہی معمولی اور منحنی سا نوجوان اپنے ماں باپ کی بے عزتی یا پاکبازوں کی بے حرمتی سے دلبرداشتہ آنسو بہاتے رہنے کی بجائے انتقام کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ، آتشیں اسلحہ ہاتھ نہ لگے تو کند چھری یا کلہاڑی کے وار سے ایسے ’’ہتھ چھٹ‘‘کا کام تمام کردیتا ہے ، یہ ہم نے اپنے گاؤں میں دیکھا اور قریبی دیہات میں بھی۔ یہاں دو ریاستوں ، دوقوموں بلکہ دو عالمی طاقتوں کا مقابلہ ہے ، ہاتھیوں کی لڑائی میں مینڈک قریب آکر اس لڑائی کے نظارے سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا ۔ کوئی سلیم الفطرت آسانی سے یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ روس یوکرائن تنازعہ میں امریکا اور روس میں سب سے قابل مذمت کردار کس کا ہے؟ پاکستان کے بیباک ، صاف گو اور تجربہ کار سفارتکار ’’ظفر ہلالی‘‘ کا تین منٹ کا تجزیہ ہزار مباحث پر بھاری ہے ، وہ کہتے ہیں : ’’جب عراق پر یک طرفہ جنگ مسلط کی گئی اور امریکیوں نے جھوٹ بول کر دس لاکھ عراقیوں کو قتل کردیا، اب یمن میں کیا ہورہا ہے، یہاں اس سے بھی زیادہ لوگوں کی زندگیاں ختم کردی گئی ہیں،کتنے لوگ بھوک سے مررہے ہیں، خوراک اور ادویات کی قلت نے قہر اٹھا رکھا ہے ، ہسپتال پر بم گرائے جارہے ہیں، سب سے قدیم شہر ’’صنعائ‘‘ کا کیا حال ہے؟ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ امریکیوں کے گھیر میں آکر یوکرائن کے لیے شور مچا رہے ہیں، یوکرائن کی ہلاکتوں پر نوحہ کررہے ہیں، وہاں کچھ بھی نہیں، یمن کے مقابلے میں ، عراق اور شام کے مقابلے میں، لیبیا اور افغانستان کے مقابلے میںمارے جانے والوں کا عشر عشیر بھی نہیں، لیکن ان سارے مظلوم شہداء کے لیے تو کسی نے زبان نہیں کھولی، یوکرائن میں لوگ کیوں مارے جارہے ہیں؟ یہ کوئی مشکل بجھارت نہیں۔ روس نے 1999ء میں امریکنوں سے کہا: آپ نے پولینڈ، ہنگری ، چیکوسلواکیہ کو ’’نیٹو ‘‘میں شامل کیا ، آپ رُک جائیں، ایسا نہ کریں، آپ آگے بڑھتے رہے تو ہمارے رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا جواب تھا، ’’اوکے‘‘(ٹھیک ہے،نہیں کرتے)پھر 2004ء میں انہوں نے بلغاریہ ، استونیا ، لتھوینیا، رومانیہ، سلواکیہ اور سلوینیا کو ممبر بنادیا، تب بھاگم بھاگ روس ان کے پاس گیا اور کہا کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ ایسا نہیں کریں گے۔ تو ان کا جواب تھا کہ کدھر ہم نے تمہیں لکھ کر دیا تھا؟ روس چپ رہا، اس نے کچھ نہیں کیا، پھر 2009ء میں البانیا، کروشیا کو نیٹو کا ممبر بنالیا، پھر روس دوڑتا ہوا ان کے پاس گیا تو پہلا سا جواب گھڑ کے رکھا تھا کہ کیا ہم نے آپ کو لکھ کر دیا؟ آگے اور آگے قدم بڑھاتے رہے، 2017ء میں کیا ہوا، مونٹے نیگرو اور ناردرن میسی ڈونیا کو نیٹو میں لے لیا، یوں بڑی تیزی سے روس کے ہمسایہ میں چاروں طرف سے اسے گھیرتے جارہے تھے، اس پر بھی کوئی جواب نہیں تھا، پھر 2021ء میں اعلان کیا کہ ہرزگوینیا، جارجیا اور یوکرائن کو نیٹو کا ممبر بنارہے ہیں۔ یعنی روس کے گرد دائرہ مکمل ہونے کو تھا، روس کے گردا گرد وہ ساری ریاستیں جنہیں حال ہی میں روس نے آزاد کیا تھا دشمن اتحاد نیٹو انہیں اپنا آلہ کار بناتا جارہا تھا۔ ہم پاکستانیوں کو تھوڑا سا تاریخی حقائق اور سیاسی واقعات سے آگاہ رہنا چاہیے۔ انہیں یہ سچائی معلوم ہونا چاہیے کہ اس سارے جھگڑے میں اصل قصور وار کون ہے؟کس کی شیطانیت جنگ کی وجہ بنی ؟ یہ جو( کامیڈین)’’جوکر‘‘ یعنی یوکرائن کے صدر کو روس کی طرف سے کہا گیا تھا بلکہ ساری دنیا چاہتی تھی کہ وہ غیر جانبدار ہوجائے ، کسی کی طرفداری نہ کرے، دنیا کا امن تباہ ہونے سے بچائیں، اس لیے کہ روس برداشت نہیں کرسکتا کہ امریکی ہتھیار اور نیٹو افواج اس کی سرحدوں پر آکر بیٹھ جائیں ، اس کے لیے خطرہ بنیں۔ جیسے امریکا نہیں برداشت کرسکتا ، کیوبا میں روسی میزائل نصب ہونے پر جنگ کے لیے تیار تھا، جیسے دو سو سال سے ’’منرو‘‘ نظریے کے تحت کینیڈا، لاطینی امریکہ، میکسیکو میں امریکہ روس یا چین کا ایک فوجی جوان بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ دو صدیوں سے اس نے آپ برداشت نہیں کیا اور دوسروں کے صحن میں اسلحہ سمیت ڈیرہ ڈالنا چاہتا ہے۔ یوکرائن کے جوکر ’’صدر‘‘کو کیا یہ نہیں پتہ تھاکہ وہ امریکا کا کھیل کھیل رہا ہے ۔ ٹرمپ کے ساتھ، کبھی بائیڈن کے ساتھ اپنے ہمسایوں کے خلاف سازش میں شریک ہورہا ہے،آخر وہ کیا چاہتا تھا؟ وہ یہ کیوں بھول رہا تھا کہ اس کا ملک ہے کیا؟ چار سو سال سے یہ روس کا حصہ رہا، چار چھ صدیوں میں صرف چھبیس سال کے لیے ایک الگ ملک بنایا گیا ، وہ بھی روس کی مرضی سے اسے کسی نے فتح کیا نہ آزاد کروایا، یہ ہمیشہ سے روس کا حصہ تھا، مگر الگ ہوکر آزاد رہنا اسے راس نہیں آیا۔ امریکا اور یورپ کے بہکاوے میں آکر یوکرائن نے جس تباہی کا سامنا کیا اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ امریکا ، روس یا خود یوکرائن ؟ کیا یوکرائن کے سکیورٹی ادارے ، خفیہ ایجنسیاں ، پارلیمنٹ میں بیٹھے نام نہاد لیڈر یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا کامیڈین صدر یورپ کی ملی بھگت اور امریکا کی سازش کے ساتھ اس منصب تک پہنچا ہے، اس کی حیثیت افغانستان میں امریکا کے کٹھ پتلی حامد کرزئی اور اشرف غنی جتنی بھی نہیں ہے، کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ اگست 2021ء میں نہتے افغانستان سے ذِلت آمیز شکست کے بعد امریکا عالمی قیادت اور سپر پاور کے منصب سے معزول کیا جاچکا ہے، اب اس کی جگہ روس اور چین کا طوطی بولتا ہے ، جن کا دبدبہ اور حربی صلاحیت یورپ اور امریکا کے مقابلے میں فزوں تر ہے ۔ امریکا اور اتحادیوں کی افغانستان سے ذِلت آمیز پسپائی کے بعد اگر کچھ حیا باقی تھی تو انہیں ایک مدت تک روس کی طرح اپنے آپ میں سمٹ کر خاموش رہنا چاہیے تھا مگر ع جن کی فطر ت میں ہو ڈسناوہ ڈس کے رہتے ہیں امریکا روس کا کچھ بگاڑ نہ سکا مگر اس نے اپنی کٹھ پتلی کو ڈس لیا، کیا کھویا ؟ کیا پایا؟ اس کا حساب باقی ہے، یوکرائن افغانستان ہے ،نہ پولینڈ پاکستان کہ وہ روس جیسے بے رحم ، طاقتور اور جسیم عفریت کا سامنا کرسکے۔ چار چھ صدیوں سے غلاموں کی طرح روس کا حصہ رہنے والا یوکرائن افغانوں کی طرح آزادی کی نعمت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ غیرجانبدار یوکرائن کو روس سے کوئی خطرہ نہیں تھا مگر خود کشی پر آمادہ شخص کو کب تک مرنے بچایا جاسکتا ہے ؟