کبھی حیرت سے آدمی سوچتا ہے ۔ آخر کیا چیز مانع تھی کہ مسلمان سائنسی تحقیقات جاری رکھتے۔ کائنات اور اس کی ماہیت میں تدبر آخر انھی کی کتابِ ہدیٰ کابنیادی سبق ہی تو تھا۔ یہ مگر کیسی عجیب بات کہ یورپ کے اندھیروں میں اپنی تحقیقات سے علم و عقل کا چراغ جلانے والے مسلمان آج علمی اور انتظامی طور پر مغرب پر انحصار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، مغرب آج کی تحقیقات کا قائد ہے۔ ہر طرح کی تحقیقات وہاں جاری رہتی ہیں۔ مسلمانوں کے طرزِ عمل اور مذہبی معاملات کے متعلق تحقیقات بھی ان کی دلچسپی کا ایک مستقل موضوع ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی معاملات کے متعلق جوکچھ تحقیقات سامنے آ سکیں ، سائنس کی دنیا میں انھوں نے دھوم مچا دی۔ مثلاً ڈاکٹر ولیم کیمبل سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا وہ مناظرہ ، پوری امریکی قوم نے جو براہِ راست دیکھا۔ ڈاکٹر ولیم کیمبل نے کتاب لکھی تھی کہ مسلمانوں کی الہامی کتاب سائنسی معیارات پر پوری نہیں اترتی ، بائبل جبکہ یہ گھاٹی با آسانی عبور کر جاتی ہے۔ ظاہر ہے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اس سے علمی انکار تھا۔ بہرحال یہ ایک شاندار اور پر وقار مناظرہ تھا۔ بالآخر جس کے اختتام پر، ٹی وی سکرین پر ولیم کیمبل کو پوری دنیا کے سامنے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ قرآن نہیں ، یہ بائبل ہے ، سائنسی بات کہنے میں جو ٹھوکر کھاتی ہے۔ ظاہر ہے، انسانی خواہشات کی سان پر چڑھی ،تو بائبل بدل دی گئی۔ خدا کا کامل کلام یہ اب کہاں رہی۔ اس موضوع پر بات کرنے کے اگرچہ کئی میدان ہیں ، حسبِ وعدہ ہمیں مگر روزے پر بات کر نی ہے۔ روزے کے متعلق جتنا کچھ سائنس اور بالخصوص طبی سائنس نے منکشف کر دیا، اسے دیکھ کر حیرتوں کے کئی در انسان پر کھلتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ معروف ترک سائنس دان نوربلوک باقی روزے کے طبی فائدے دیکھ کے پکار اٹھتاہے: "The day will come when every one will fast." ’’یعنی وہ وقت بھی آئے گا، کہ جب دنیا پر روزے کا فائدہ آشکار ہو گا تو ہر شخص کو روزہ رکھنا ہی پڑے گا۔‘‘ روزے کے بارے میں ایک دلچسپ بات یورپ کے کیتھولک عیسائی ڈاکٹر ژوفرائے (جوفرائے ) نے کی ۔Fasting کے نام سے جوفرائے کی کتاب پیرس سے چھپی۔ یہ کتاب کچھ اور طرح کے انکشافات سے بھری ہوئی کتاب ہے۔ جوفرائے کتاب میں انکشاف کرتے ہیں کہ انسانوں میں تو ہے ہی ، روزہ مگر کائنات کی کچھ دوسری چیزوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً نباتات اور حیوانات میں بھی۔ جوفرائے مثال دیتاہے کہ جن علاقوں میں برفباری ہوتی ہے اور اس قدر کہ سطحِ زمین پر کئی ماہ برفباری کی دبیز تہہ جمی رہتی ہے۔ ایسے موسموں میں، ان علاقوں کے نباتات برف کی تہوں میں دب جاتے ہیں جبکہ حیوانات اور پرندے غاروں میں جا دبکتے ہیں۔ ظاہر ہے ، تب انھیں کوئی غذا مہیا نہیں ہو پاتی۔ یوں ایک طویل عرصہ یہ غذا وغیرہ سے قطعی بے نیاز نیم مردہ یا بے ہوش پڑے رہتے ہیں۔ عام زبان میں اس عمل کو Hibernation کہتے ہیں، البتہ جوفرائے اسے روزے سے تعبیر کرتا ہے۔ جوفرائے کہتاہے کہ جب سرما گزرتا ہے اور بہار جب کھلکھلاتی، برف پگھلتی اور برفوں میں زندگی سانس لیتی ہے تو بے حس و حرکت کومے میں پڑے یہ حیوانات و نباتات انگڑائی لے کے گویا اپنے روزے کی افطاری کر لیتے ہیں۔ جوفرائے عین اس مرحلے کی تحقیقات پر توجہ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے ، تب صورت یہ ہوتی ہے کہ پرندوں کے پر جھڑ چکے ہوتے ہیں مگر انھیں نئے ، توانا اور خوبصورت پر عطا ہو جاتے ہیں۔ و ہ سانپ پر غور کرتا ہے کہ تب اسے نئی جلد میسر آجاتی ہے ، جو پہلی سے زیادہ چمکدار ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے ، ان علاقوں کے اشجار بھی یہ عرصہ بن پانی کے گزارتے ہیں اور آخر میں تازہ کونپلیں اور نئے پتے پاتے ہیں۔ جوفرائے کی تحقیق کے مطابق روزہ رکھے ہوئے جانوروں میں کئی گنا توانائی بھی بڑھ جاتی ہے۔ انہی تحقیقات کی روشنی میں جوفرائے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے چوکس اور بیدار رہنے کے لیے ایک انسان کو سال میں چالیس روزے ضرور رکھنے چاہئیں۔ ظاہر ہے مسلمان رمضان کے ساتھ شوال کے چھ روزے ملا لیں تو جوفرائے کی بیان کردہ تعداد کو پا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر جوفرائے کی تحقیق کے مطابق روزے سے جانداروں کی جلد کے خوبصورت، چمکدار اور مضبوط ہوجانے کی بات یقیناًہمارے لیے دلچسپ ہو سکتی ہے۔ یہ دلچسپی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے ، جب ہم عرب ڈاکٹر سعد الصقیرکی بات سنتے ہیں۔ حال ہی میں ، یعنی اسی رمضان میں، ڈاکٹر سعد الصقیرکو العربیہ ٹی وی کے پروگرام ’صباح العربیہ‘ میں روزے پر بات کرتے سنا گیا۔ ڈاکٹر سعد الصقیرانسانی جلد، کاسمیٹک سرجری اور انسدادِ بڑھاپا جیسے امور کے طبی ماہر ہیں۔ ڈاکٹر موصوف کا کہنا تھا کہ ہفتہ بھرسولہ گھنٹے کا روزہ رکھنا بڑھاپے کے اثرات زائل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ 1980ء میں اس حوالے سے ہوئی ،ایک مشہور تحقیق کا بھی انھوں نے حوالہ دیا۔ ان کے بقول طبی دنیا میں اس تحقیق کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انسانی جلد ، بالوں اور ناخنوں پر روزے کے اثرات کے متعلق بتایا کہ روزے سے بال سیاہ اور مضبوط، جلد جوان و جاذب اور ناخن زیادہ چمکدار ہو جاتے ہیں۔ یہ سارے کرشمے خون کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ (خون پر روزے کے اثرات پر بات آئندہ کی گفتگو سے مزیدکھل جائے گی ) اس دور میں یہ بات ہمیں اس لیے بھی اجنبی محسوس نہیں ہو سکتی کہ دنیا بھر میں ڈائٹنگ سے جسم سڈول ، توانا اور جوان رکھنے کی مشق عام ہو چکی ہے۔ ڈائٹنگ اور روزے میں مگر روحانیت کے علاوہ بھی بہت فرق ہے۔ روزے جیسی مستقل اور مستحکم پابندی ظاہر ہے ڈائٹنگ میں کسی صورت ممکن نہیں۔ امریکہ کے مسلمان سائنسدان ڈاکٹر ابراہیم سید کی ایک تحقیق بھی چونکا دینے والی ہے۔ یہ تحقیق لیبارٹری میں موجود جانوروں پرکی گئی۔ سادہ سا ایک کام کیا گیا۔ یعنی لیبارٹری میں موجود کچھ جانوروں کی خوراک معمول سے کم کر دی گئی۔ ایک خاص مدت تک یہ عمل جاری رکھا گیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ کم خور جانور اپنے باقی بسیار خور ساتھیوں سے عمر میں آگے نکل گئے۔ یعنی انھیں طویل عمر نصیب ہوئی۔ اس کی سائنسی توجیہہ یہی کی جا سکی کہ کم کھانے سے ، جسم میں زہریلے مادے بھی کم پیدا ہوتے ہیں اور یوں انسانی دفاعی نظام Immune system مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے ، اتنی بات سے بھی کچھ نہ کچھ ہمیں معلوم ہو ہی گیا کہ خدا ہمیں بھوکا کیوں رکھتا ہے اور وہ یہ کیوں فرماتاہے کہ ’’روزہ رکھنا ہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگرتم جان لو۔‘‘ بات مگر ابھی جاری ہے۔