برادر احسن اقبال کو اللہ تعالیٰ حفظ و امان میں رکھے اور شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔ تلخی بڑھ رہی ہے اور سیاست میں بات تو تو، میں میں سے بڑھ کر گولی تک آ پہنچی ہے۔ درجہ حرارت بڑھانے میں کسی ایک شخص اور گروہ کا کمال نہیں، ہر ایک اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اپوزیشن حکومت اور اپنے سیاسی مخالفین پر برہم ہے مگر حکمرانوں کا ہدف اپوزیشن کے علاوہ ریاستی ادارے فوج، خفیہ ایجنسیاں اور عدلیہ ہیں۔ جلتی پر تیل ہر ایک ڈال رہا ہے، پانی چھڑکنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ احسن اقبال پر حملہ ایک فرد کا ذاتی و انفرادی فعل ہے یا کوئی مخصوص گروہ پس پشت کارفرما ہے؟ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات سے پتہ چلے گا مگر طلال چودھری جیسے مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں نے ملبہ خلائی مخلوق پر ڈال کر معاملے کو مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے گویا ریاستی ادارے اپنے ہی وزیر داخلہ کو قربانی کا بکرا بنا کر مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری اور اُن کے ہمنوا یہ سوچنے پر تیار ہی نہیں کہ وزیر داخلہ پر اُن کے اپنے حامیوں کے اجتماع میں حملہ حکومت اور امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار اداروں کی ناکامی ہے، بیرون ملک سکیورٹی کے حوالے سے کیا تاثر ابھرا؟ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کو کتنا نقصان پہنچا؟ صرف بلیم گیم، پوائنٹ سکورنگ اور میاں نواز شریف کی خوشنودی کے لیے بیان بازی کے ریاست پر کیا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ خدا کا شکر ہے ملزم موقع پر گرفتار ہوا زیر تفتیش ہے مقامی ہے، باہر سے آیا، نہ لایا گیا مگر اس واقعہ کویار لوگوں نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر دہشت گردوں کے قاتلانہ حملے سے جوڑ کر عام انتخابات کو مؤخر اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش قرار دے ڈالا۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی قیادت خود کش حملوں کے خوف سے انتخابی مہم نہ چلا سکی جبکہ میاں نواز شریف اور عمران خان خوفزدہ ہوئے بغیر اجتماعات سے خطاب کرتے رہے، اپنی کرپشن، نا اہلی کے بجائے دونوں پارٹیوں نے شکست کا ذمہ دار دہشت گردوں کو ٹھہرایا اور پیروکاروں نے مان لیا۔ یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ خلائی مخلوق حکمران جماعت کو انتخابی مہم سے باز رکھنا چاہتی ہے جو اس لحاظ سے لغو بات ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز گزشتہ آٹھ نو ماہ سے فوج، عدلیہ اور دیگر قومی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کا چورن آزادی سے بیچ رہے ہیں کسی نے انہیں روکا نہ ٹوکا اور موصوف ایک ضدی مہم جو کی طرح اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ جسے ان کے بعض خیر خواہ بند گلی کا سفر قرار دیتے ہیں۔ آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی۔ اگر حملہ آور کا یہ انفرادی فعل نہیں، کوئی گروہ اس کی پشت پر ہے تو پھر اسے انتخابات ملتوی کرانے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش قرار دیا جا سکتا ہے مگر ذمہ دار پاکستان کے دشمن ہوں گے جن پر حکمران اشرافیہ انگلی نہیں اٹھاتی، طعن و تشنیع سے تو اس کے پر جلتے ہیں۔ سارا زور بیان اپنے اداروں کے خلاف صرف کرنے والے اس کی ضرورت بھی شاید محسوس نہیں کرتے کہ پاک فوج، عدلیہ اور خفیہ اداروں کے خلاف حکمران اشرافیہ اور عالمی مہربانوں کی رائے یکساں ہے ع متفق گر دید رائے بو علی با رائے من اختلاف کو سیاسی دشمنی، کی حدود میں داخل کرنے، کارکنوں کی مخالفین کے علاوہ اپنے ہی اداروں کے خلاف برین واشنگ اور جذبات کو مسلسل بھڑکانے کا نتیجہ ہے کہ احسن اقبال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچنے اور ملزم کی زبان سے ایک لفظ ادا ہونے سے قبل سوشل میڈیا پر الزام تراشی کا بازار گرم ہوا اور تہذیب و شائستگی کے تقاضوں کو پامال کیا گیا۔ 1970ء کی انتخابی مہم میں ایسی ہی اشتعال انگیز، ہیجان خیز الزام تراشی سے فتنہ پھیلا اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچی۔ اب صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک بلکہ تشویشناک ہے کہ حکومت غیر جانبدار نہیں، فریق ہے اور وہ شرانگیزی و فتنہ پروری کا تدارک کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فروا ہے۔ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی زبانیں آگ اگل رہی ہیں اور مخالفین بھی ضبط و تحمل کے بجائے ترکی بہ ترکی جواب دینے پر تُلے ہیں، ہر ایک کو اپنی پڑی ہے یا اپنے مسلکی و سیاسی مفادات کی، کسی کو ملک کی فکر ہے نہ بیرون ملک پاکستان کے امیج کی جو بری طرح مجروح ہو رہا ہے، جس ملک کا وزیر داخلہ سکیورٹی کے حصار میں محفوظ نہ ہو، چند فٹ کے فاصلے سے گولی کا نشانہ بن جائے اس کے غیر ملکی سیاحوں اور سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ ہونے کی ضمانت کون دے گا اور کوئی دے تو کون یقین کریگا؟ جن لوگوں نے اسے ریاست پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے غلط نہیں کہا مگر جس ملک کا سابق وزیر اعظم اور ان کا قلم قبیلہ ریاست کے اُن اداروں پر حملہ آور ہو جنہیں واقعتاً ریاست کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے اور جن کی کمزوری ریاست کی کمزوری تصور ہوتی ہے۔ وہاں ان حملہ آوروں سے کون نمٹے؟ حملے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہیجانی کیفیت اور الزام تراشی کلچر ختم کرنے کے لیے سنجیدہ تجاویز سامنے آتیں، ماضی کی تلخیوں کا سدباب کرنے کی تدبیر کی جاتی،نسلی،لسانی، مسلکی منافرت پھیلانے والے گروہوں سے نمٹنے کا منصوبہ بنتا، وزیر اعظم کابینہ کا اجلاس بلا کر سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے وزراء سے تبادلہ خیال کرتے، مختلف سیاسی جماعتیں بھی کور کمیٹی اجلاس بلا کر سوچ بچار کی زحمت گوارا کرتیں مگر کسی کو ہوش ہے نہ پرواہ۔ اپوزیشن رسمی بیانات پر اکتفا کر رہی ہے تو حکومت بھی صرف یہی بیانیہ آگے بڑھا رہی ہے کہ نادیدہ قوتیں الیکشن کا التوا چاہتی ہیں یا مسلم لیگ(ن) کو انتخابی مہم سے باز رکھنے کے در پے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل گوجرانوالہ، حافظ آباد روڈ پر واقع ایک گائوں میں لیٹر بکس کا تالہ ٹوٹا تو لاہور کا انگریز ایس پی معائنہ کے لیے جائے واردات پر پہنچا، انگریز راج میں یہ ریاست کے لیے چیلنج تھا۔ مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان آف کالا باغ کو اطلاع ملی کہ ایک نا معلوم شخص نے کوئٹہ کے کمشنر ہائوس کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کی اور محافظوں کی ہوائی فائرنگ پر فرار ہو گیا۔ گورنر نے سخت نوٹس لیا اور کمشنر کی جواب طلبی کی کہ آخر کسی مجرم کو کمشنر ہائوس کے اردگرد پھٹکنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ حکومت اور کمشنر کا رعب کیا ختم ہو گیا؟ مگر یہاں پوری قوم کی سکیورٹی کے ذمہ دار وزیر داخلہ کی اپنی سکیورٹی کا یہ حال ہے کہ ملزم اسلحہ لے کر اجتماع میں پہنچا، آرام سے بیٹھا تقریر سنتا رہا اور پھر موقع ملنے پر گولی چلا دی۔ جانچ پڑتال کا سارا گورکھ دھندہ اور بارود کا سراغ لگانے کے سارے جدید آلات و انتظامات بے کار ثابت ہوئے۔ المیہ یہ کہ متعلقہ اداروں کی ناکامی کے اسباب و علل کا جائزہ لینے کے بجائے قومی اداروں کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں یہ اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کی شعوری کوشش ہے یا غیروں کے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہچانے کی لاشعوری تدبیر۔ پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے خواہش مند ہمارے دشمنوں کو طلال چودھری جیسوں کے بیانات پڑھ کر کتنی طمانیت ملی؟ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ احسن اقبال کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور انہیں نادان دوستوں سے بچائے جو اس حادثے سے سیاسی و ذاتی مفاد کشید کرنے کے درپے ہیں۔