ووٹ کو عزت دو ۔۔ مسلم لیگ نون کا نعرہ تھا جب باجوہ اور عمران کا رومانس ختم ہوا ۔، عمران گیا تو یہ نعرہ بھی مرگیا۔ مریم نواز کے دو اتالیق ہوا کرتے تھے۔ عرفان صدیقی صاحب اور کامریڈ پرویز رشید ۔ پھر اپوزیشن کے دنوں میں مریم اورنگ زیب ان کی غیر علانیہ مشیر بن گئیں۔ الیکشن 2024ء سے پہلے جب چھوٹی مریم نے صوبائی اسمبلی کی نشست چاہی تو سب نظریں مریم نواز کی طرف اٹھ گئیں کہ مریم نواز چیف منسٹری کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ماضی میں جنرل مشرف سے لے کر ہر قسم کی مقتدرہ نے شہباز شریف کو منانا چاہا کہ آپ بڑے بھائی سے تھوڑی سی بے وفائی کردیں تو آپ وزیر اعظم ۔ مگر شہباز ہمیشہ طرح دے جاتے۔ PDM کے وزیر اعظم بننے سے پہلے وہ مسلم لیگ ن کے اندر کھینچا تانی اور مریم کی سیاسی پیش قدمیوں سے خاصے پریشان تھے۔ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کی قربتوں میں کوئی راستہ تھا نہ کسی منزل کا سراغ۔ انہیں کوئی تدبیر نہیں سوجھ رہی تھی۔ پھر ان کے کسی قریبی نے ان کے ایک مخالف میڈیا پنڈت سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ اس ملاقات میں چھوٹے میاں کی باڈی لینگویج ، گفتگو اور تاثرات خاصے Defensive تھے۔ مقتدرہ انہیں اپنا محفوظ گھوڑا تو مانتی تھی مگر بڑے میاں کا ماضی اسٹیبلشمنٹ کو ڈراتا تھا بالکل ایسے ہی جیسے آج انہیں عمران کا ماضی ڈراتا ہے۔ ملاقات بہت اچھی رہی اور میڈیا پنڈت نے انہیں کچھ سود مند مشورے بھی دیئے۔ پھر ایک دن شہباز شریف کی جانب سے دوبارہ رابطہ ہوا کہ مجھے فلاں میڈیا پنڈت انٹرویو کرنا چاہتا ہے۔ اس نے سوال نامہ بھی بھیج دیا ہے۔ سوال مشکل ہیں، جوابات کے لیے راہنمائی فرما دیں۔ اسی میڈیا پنڈت نے عمران سے قربت کے باوجود کمال متانت اور بردباری کے ساتھ چھوٹے میاں کو صد فی صد گائیڈ کیا اور معاونت بھی فراہم کی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس میڈیا پنڈت کا ایک چینل کے لیے کیا گیا میاں صاحب کا انٹرویو بہت کامیاب رہا۔ اس میں سب سے مشکل سوالات وہ تھے جن میں نوازشریف کے ماضی پر اور پھر دونوں بھائیوں کے آپسی تعلقات کا ریفرنس تھا۔ مریم کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ عمران اور باجوہ تعاون کے دنوں میں اپوزیشن کے جلسے کرتی رہی ۔ سیاسی طور پر مشکل دو ر تھا۔ وہ مقتدرہ کو چیلنج کرتی رہی۔ وہ … ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی بلند کرتی رہی۔ پھر اپریل 2022 ء آیا اور عمران حکومت سے نکل گیا اور پھر جنرل باجوہ بھی ریٹائر ہوگئے۔ اب PDM کی حکومت تھی، چاہیے تو یہ تھا کہ فوری طور پر الیکشن کروا دیئے جاتے۔ مگر 2016ء سے شریفس بھاگ بھاگ کر تھک چکے تھے۔ عمران اور ـ’’وہ‘‘ انہیں سانس نہیں لینے دے رہے تھے۔ ایسے میں بڑے میاں کے مشورے کے خلاف اور مولانا اور آصف زرداری کے دبائو پر الیکشن کی بجائے حکومت میں رہنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ عمران۔۔ IMF کے ساتھ جو کرچکا تھا اس کے بعد قرض کی قسط ملنا محال تھا۔ پاکستان معاشی طور پر آخری سانسوں پر تھا۔ مفتاح اسماعیل اور مقتدرہ نے مل کر IMF کو رام کرنا شروع کیا مگر بڑے میاں کے دبائو پر مفتاح کی جگہ ڈار ڈالر آگئے۔ ان کی خوش فہمی نے بہت سا وقت ضائع کردیا۔ ایک غلط فہمی اور بھی تھی وہ یہ کہ جب میاں نوازشریف ایئرپورٹ پر اتریں گے تو سرف کے اشتہار کی طرح سب داغ دھل جائیں گے۔ مگر بڑے میاں کی عدم موجودگی میں پاکستان کی سیاسی کیمسٹری یو ٹرن لے چکی تھی۔ میاں صاحب کا آنا مفید ثابت نہ ہوا۔ الیکشن 2024ء سے پہلے بڑے میاں صاحب جلسے کر رہے تھے اور مریم نواز ان کے سیاسی وارث ہونے کی Looks دے رہی تھیں۔ مریم کے ساتھ چھوٹی مریم بھی خود کو نوازشریف کے سیاسی سرمائے کا حصہ دار تصور کر رہی تھیں۔ آپ ان تمام جلسوں کی وڈیو کلپس دیکھیں۔ آپ کو چھوٹے میاں کی بدن بولی اور چہرے کے تاثرات محتاط اور مختلف نظر آئیں گے۔ مودب مگر ایسا شخص جو ظاہر سے زیادہ باطن کی خبر رکھتا ہے۔ بڑے میاں صاحب کا خیال تھا کہ مینڈیٹ اتنا مل جائے گا کہ وہ وزیر اعظم اور پنجاب میں مریم وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ اس پر جب بھی مستقل حکمرانوں سے اس خیال کا اظہار کیا گیا۔۔۔ دوسری جانب سے مسکراہٹ اور نیم رضامندی کا اظہار کیا گیا۔ بات ہوئی بھی اور نہیں بھی ۔ خیال تھا کہ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں 80 سے 100 تک نشستیں لے لے گی اور پھر پیپلز پارٹی اور یہ مل کر حکومت بنائیں گے۔ پنجاب کے چیف منسٹر کا فیصلہ الیکشن رزلٹ دیکھ کر فائنل کیا جائے گا۔ مگر الیکشن ڈے پر تحریک انصاف کا ووٹر X فیکٹر ثابت ہوا۔ اس نے اندازوں کی ساری طنابیں توڑ دیں۔ اس کی ابتداء لاہور سے ہوئی جہاں یاسمین راشد کے حلقے کے نتیجے نے کانوں سے دھواں نکال دیا۔ نتائج روکنے پڑ گئے ۔ سیالکوٹ سے لاہور تک اور لاہور سے اسلام آباد تک ہر شے ہولڈ پر لگ گئی۔ اس وقفے میں ن کو اس کی اوقات اور بساط سمجھا دی گئی۔ اور پھر مثبت نتائج آنے لگے۔ فیصل واڈا کے مطابق تو فارم 45 اور 47 میں چھولے رکھ کر کھانے چاہئیں۔ مریم نواز کو روزانہ کچھ آزاد امیدوار ملتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہم لوٹے ہیں، کیا آپ ہمیں قبول کریں گی؟ مریم اپنی ساری تقریریں بھول کر انہیں کہتی ہیں : موسٹ ویلکم ۔ نوازشریف کی وکٹری سپیچ پر مؤرخ کیا لکھے گا؟ مریم اگر CM بن بھی جاتی ہیں اور ن کا وزیر اعظم بھی تو کیا یہ کمزور حکومتیں ووٹ کو عزت دے پائیں گی؟ اپنی مدت پوری کرپائیں گی؟ الف لیلہ جیسے الیکشن کے بعد منیر نیازی کا ایک شعر ان سے معذرت کے ساتھ ۔۔۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا’’شریف‘‘مجھ کو ۔۔۔جو ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔خدشہ ہے کہ ن کی مقبولیت کی بوری میں سوراخ ہو چکے۔ حکومت بھی کریں اور رک کر سوچیں بھی ۔ کیوں ؟ کب؟ اور کیسے؟