پرسوں 2020-21 ء کا وفاقی بجٹ آ رہا ہے، اگرچہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اب تو بجٹ محض ایک گورکھ دھندا بن کر رہ گیا ہے کیونکہ سارا سال اقتصادی پالیسیوں، تخمینوں اور اہداف میں مسلسل تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا تو پہلے ہی بھرکس نکلا ہوا تھااور اس کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی لیکن رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی ہے۔2019-20 ء کے بجٹ میں دیئے گئے اہداف بھی عمومی طور پر پورے نہیں ہو سکے اور اب موجودہ حالات میں جو بھی نئے ہدف مقرر کئے جائیں ان کی تکمیل کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے ۔ ویسے بھی بجٹ تو آئی ایم ایف نے پہلے ہی دے دیا ہوا ہے کیونکہ ہم بین الاقوامی ادارے کے پروگرام میں جا چکے ہیں ۔2018 ء میں تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد جب اسد عمر وزیر خزانہ تھے یہی بحث ہوتی رہی کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا چاہیے یا نہیں۔اسد عمر کا خیال تھا کہ اس کی ضرورت نہیں اور بالآخر ان کے اس استدلال کی پاداش میں انہیں وزارت خزانہ سے فارغ کر دیا گیا اور پاکستان گزشتہ برس چھ ارب ڈالر کے آئی ایم ایف کے39مہینوں پر محیط E.F.F یعنی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی میں چلا گیا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات سے پہلے ہی اسد عمر کی جگہ ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار جو پہلے بھی پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے تھے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیر برائے خزانہ بنایا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ سٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کے ایک حاضر سروس اہلکار رضا باقر کو لگایا گیا ۔اسی بنا پر عوام نے طنزیہ طور پر کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کارندے ہی بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے نئے پیکیج کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں ۔ پاکستان 11 جولائی 1950 ء کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا اور قرضے حاصل کرنے کیلئے 22 مرتبہ اس کے پاس جا چکا ہے جبکہ 1980ء سے اب تک پندرہ بار اس ادارے کے در پر حاضری دے چکا ہے۔پاکستان کو اب تک آئی ایم ایف سے 12 مرتبہ ایس بی اے جبکہ چھ بار ای ایف ایف کے تحت قرض ملا جبکہ تین بار 'ایکسٹینڈڈ کریڈٹ فیسیلیٹی(ای سی ایف) اور ایک بار 'سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ فیسیلیٹی کمٹمنٹ' کے تحت قرض حاصل کیا گیا۔ای ایف ایف وسط مدتی پروگرام ہے جس کا مقصد صرف ادائیگیوں میں توازن نہیں بلکہ اس کی خاص توجہ ملک کے معاشی ڈھانچے میں اصلاحات پر بھی ہوتا ہے۔ گزشتہ برس بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو قرض دینے کیلئے انتہائی کڑی شرائط عائد کیں، 6 ارب ڈالر کے ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلیٹی پروگرام کو آئندہ وفاقی بجٹ میں چھوٹے اقتصادی ڈھانچے کی مجوزہ اصلاحات سے مشروط کیا۔ذرائع کے مطابق رْکی قسطیں جاری کرنے کیلئے ڈیوٹی و ٹیکسوں میں غیر ضروری چھوٹ و رعایتیں ختم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے بجائے کٹوتی کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا صورت حال کے تناظر میں پیداواری شعبے کیلئے اقدامات جبکہ اخراجات کم کرنے کا مشورہ دیا گیاہے۔ آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کی روشنی میں ہی ہماری اقتصادی پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں ۔ مثال کے طور پر2019-20 ء کے بجٹ میں ریونیو ٹارگٹ آئی ایم ایف کی فرمائش پر5500ارب روپے مقرر کیا گیا تھا لیکن کورونا وبا سے پہلے ہی رواں مالی سال کے دس ماہ میں صرف 3408.83ارب موصول ہو سکے۔ کورونا وائرس کی بنا پر ٹارگٹ کو 3908ارب تک کم کیا گیا لیکن یہ بھی پورا نہ ہو پایا ۔ پاکستان کے اقتصا دی کار پردازوں کے اعلان شدہ اندازوں کے باوجود کہ شرح نمو میں آئندہ مالی سال کے دوران 2.3فیصد اضافہ ہو گا ،عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یہ منفی ایک فیصد ہو گا ۔اسی طرح رواں مالی سال میں پہلے ہی عالمی بینک یہ پیشگوئی کر چکا ہے کہ شرح نمو منفی 0.3فیصد رہے گی ۔اس پس منظر میں حکومت بالخصوص وزارت خزانہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کسی طرح اقتصادیات کا پہیہ دوبارہ چلنا شروع ہو جائے۔ کورونا وائرس کی وبا اب تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اس سے متاثرین کی تعداد رواں ماہ کے آخرتک دو لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی، ہلاکتوں کی شرح بھی تشویشناک حد تک بڑھنے کا خطرہ ہے لیکن حکومت کا اصرار ہے کہ لاک ڈاؤن سے غریب آدمی مر جائے گا کیونکہ روزگار کے مواقع پہلے سے بھی محدود ہو جائیں گے ۔اسی بنا پر سمارٹ لاک ڈاؤن کی ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے لیکن عملی طور پر روز اول سے ہی کسی قسم کے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ اب مثال دی جا رہی ہے یورپ اور امریکہ سمیت کئی ممالک میں یہی فکر لاحق ہے کہ تاریخ کی بدترین اقتصادی بدحالی سے عوام کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی اور لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی اقتصادیات کی بحالی میں کئی برس لگ جائیں گے لیکن ان ممالک میں پہلے عملی طور پر کورونا کے بڑھتے ہوئے گراف کو نیچے لایا گیا اور پھر لاک ڈاؤن نرم ہوا۔ ہمارے ہاںالٹی گنگا بہائی گئی ،کورونا وبا بھی پھیل رہی ہے اور لاک ڈاؤن کو بھی نرم کر دیا گیا ،مزید برآں ایس او پیز پر بھی عمل نہیں کیا جا رہا ۔وزیراعظم فرماتے ہیںکہ پاکستان کے موقف کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے،حالانکہ بھارت کے علاوہ معدودے چند ممالک ہی ہیں جو وبا پھیلنے کے باوجود اس ماڈل کو اپنا رہے ہیں ۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے اتوار کو ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کیا جائے اور سارا زور نجی شعبے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر دیا جائے۔ وزیراعظم اور ان کے مشیروں کو اب فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کی اقتصادیات کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔جس انداز سے شوگر انڈسڑی کو شوگر مافیا کہہ کر مجموعی طور پر مطعون کیا جا رہا ہے، اس سے نجی شعبے کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص بھی چینی کا کاروبار کرتا ہے وہ مافیا کا حصہ ہونے کے ناتے مجرم ہے ۔اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو کل کلاں بالواسطہ اور بلاواسطہ سبسیڈیز لینے والی دیگر صنعتوں کو بھی مافیا قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقینا نجی شعبے کو ریگولیٹ کرنے کے لیے دوررس اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن ستر سال سے مروجہ ایس آر او کلچر کو بیک جنبش قلم تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج پریس کانفرنسیں کر کے چلی جاتی ہے لیکن کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نام پر عجیب ہذیانی سی کیفیت طاری کر دی جاتی ہے جسے بعض ناقدین ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کی پالیسی سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال سے تشبیہ دیتے ہیں ۔اس وقت سٹیٹ بینک کے اندازوں کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران روپے کی قیمت مزید کم ہو گی اور ایک اندازے کے مطابق ڈالر 170 روپے سے بھی بڑھ جائے گا ۔سٹا ک مارکیٹ بھی مزید گرنے کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں ۔ بے روزگاری کی شرح بھی 6.1کے لگ بھگ رہے گی ۔افراط زر کی شرح آئندہ سال 11فیصد تک رہنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔اس تناظر میں جبکہ ایک طرف آئی ایم ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور دوسری طرف کورونا اور حکومت کی اپنی ناقص پالیسیوں نے معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے بجٹ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا ۔