ربع صدی ہوتی ہے۔ گائوں کو خیر آباد کہے ہوئے ،مگر دل ابھی تک وہی دھڑکتا ہے ،اس وجہ سے نہیں کہ وہاںزندگی سستی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ میرا خمیر اسی مٹی سے اٹھا ہے ۔ خوبصورت پگڈنڈیاں، سہانی گلیاں، کشادہ سڑکیں اور بازاروں کے درودیوار میری پہلی محبت ہیں ۔ چند روز قبل گائوں گیا ،تو پرائمری سکول ڈیرہ ہاشم کے گیٹ پر کھڑا ہو کر کچھ دیر ماضی کی یادوں میں گم ہو گیا۔ اچانک ذہن میں پنجابی کا جملہ آیا ۔ ’’کتھے جا وسیوں وے لوکا‘‘ یہ درد وہی محسوس کر سکتے ہیں ،جو پردیس میں جا بسے ہیں،پردیس جا بسنے والوں کے دلوں پر کیا بیتتی ہے، صرف وہی جانتے ہیں ۔ ڈیرہ ہاشم خاں سکول میں پرائمری کی تعلیم حاصل کی ،ٹاٹ سکول تھا۔چار دیواری کی جگہ کانٹوں کی باڑ تھی ۔ہیڈ ماسٹر استاذی رشید احمد مخدوم صاحب نے بڑی محنت شاقہ سے سکول میں تعلیم کے ساتھ ساتھ خوشخطی کا معیار مقرر کر رکھا تھا ۔استادمنظور احمد صاحب اور حبیب اللہ مخدوم صاحب بھی آپ کے شانہ بشانہ تھے ۔سکول کے طلبہ نے کئی بار پوزیشن لی۔سکول کا نام روشن کیا۔بڑی دیر کھڑا ماضی کی یادوں میں کھویا رہا ۔ گائوں کی گلیاں اب ویران ویران سے لگتی ہیں ۔غربت ،بے روزگاری اورتنگدستی کے باعث بچپن کے سبھی دوست سمندر پار جا بسے ۔کچھ یورپ میں اور چند ایک ولایت ۔چند روز قبل ایک دوست سے بات ہوئی ،تو اسے میں نے کہا :یہاں کھانے پینے کو فراواں، جان محفوظ۔ امکانات کا ایک جہان تمہارے سامنے کھلا۔ پھر پریشان کیوں ؟ اس پہ دوست نے کہا ’’پردیس کی بادشاہت سے بہتر ہے کہ اپنے گائوں کے گلی کوچوں میں آدمی بھیک مانگا کرے۔‘‘ اس کے لہجے میںگہرا قلق تھا۔ دوسری جانب میں ساکت۔ کیونکہ اس کی بات میں بڑا وزن تھا۔سبھی پردیسی انشاء اللہ وطن لوٹ آئیں گے۔ تلک الایام نداولہا بین الناس۔ انسانوں کے درمیان وقت کو ہم گردش دیتے رہتے ہیں۔ اٹھائیس برس ہوتے ہیں۔گائوں کی شام دوستوں کے ہمراہ گھر کے سامنے گزرنے والی نہر پر بیٹھا تھا ۔تب لاہور کی یاترا کا بڑا شوق تھا کیونکہ لاہور ایک ایسا شہر ہے، جو ہر زبان اور قوم کو اپنے اندر سما لیتا ہے ۔برادرم محمد اکرم تارڑ اور چاچا محمدعنایت کے ہمراہ یہاں آیا، تو ایک اور مخدوم زادے نے شفقت فرمائی ۔ محترم حنیف مخدوم نے بڑی محبت سے داخلے کے لیے کوشش کی ۔داخلہ مل گیا مگر ہاسٹل نہ مل سکا، تو کئی ماہ ان کے پاس ہی رہا۔ ان کی مہربانیاں اور شفقتیں ہمہ وقت ساتھ رہیں۔ محترم محمد حنیف مخدوم جس گائوں کے باسی ہیں ،یہی اس کا خاصہ۔ میانوال رانجھا کے درو دیوار بھی مسافروں کو اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں ۔اسی گائوں کا ایک سپوت امتیاز احمد رانجھا نے کمال کی سیاست کی۔ روایتی سیاست سے ہٹ کر ، مگر لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا ۔وہ لیڈر نہیں کہ شہرت کو اندوختہ بنائیں، حتیٰ کہ بدنامی کو بھی۔ پکڑے جائیں تو ترس کے جذبات پیدا کرکے، اسی کو سیاسی سرمایہ کریں۔ اس کے بل پر ووٹ کی بھیک مانگیں۔ وہ عافیت کے آرزومند ہیں۔ ووٹر کی ناراضی مول نہیں لیتے ۔ لاہور میں براردم قمرالزمان چوہدری کے ساتھ شب روز بیتے ۔مگر اب وہ ہم میں نہیں ۔کئی اور بھی۔ سعید فرید ،اسامہ نیازی ،محمد فاروق اورمحمد اجمل سبھی نے جمال و جلال کے ساتھ زندگی بسر کی۔ مرقد پہ نور برستا ہے۔ ہر موت اپنے ساتھ دکھ لاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی مگر اٹھتے ہیں کہ دنیا خالی نظر آنے لگتی ہے۔گرنے کو سبھی شجر گرتے ہیں مگر برگد گرتا ہے تو قلق سوا ہوتاہے۔ قمرالزمان چوہدری کی وفات بہت گہری اداسی اپنے ساتھ لائی ہے۔ شام کے بغیر شام۔ سہ پہر کو جیسے سورج ڈوب جائے۔ ہر چیز فنا ہوتی ہے۔ ہر آدمی نے ایک دن مٹی کی چادر اوڑھنی ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ انشاء اللہ وہ عرشِ بریں کے ٹھنڈے سائے میں ہوں گے۔ چوہدری صاحب مرحوم ایسے ہی تھے۔نمودِ ذات سے بے نیاز۔باکمال عالم دین ، خطیب، قائد،صحافی اور ڈھنگ کے کالم نگار۔ عجیب بات یہ ہے کہ نمایاں ہونے کی ان میں کبھی کوئی آرزو نہ تھی۔ زمانہ طالب علمی میں ان کے ہمراہ ایک سٹوڈنٹ تنظیم کی بنیاد رکھنے کے لیے چند دوست اکٹھے ہوئے ۔ہم نے انھیں صدر منتخب کیا تو صاف انکار کر دیا ۔کہا میں ایک کارکن کی طرح ساتھ چلوں گا۔ ایک قادرالکلام صحافی ہونے کے باوجود شہرت کی جس شخص میں آرزو باقی نہ رہی ، اہلِ فقر کی ایک اور علامت یہ ہے کہ کسی چیز کے وہ مدعی نہیں ہوتے۔ کوئی دعویٰ نہیں رکھتے۔ کبھی اپنا کوئی کارنامہ بیان نہیں کرتے۔ حرفِ تحسین کے طالب نہیں ہوتے۔ لوگ انہیں سادہ لوح سمجھتے ہیںحالانکہ وہی سب سے دانا ہوتے ہیں۔ سلیم الفطرت مگر ایسے کہ ساری زندگی سچائی، سادگی اور صبر میں بتا دیتے ہیں۔ ایک عہد تمام ہوا،دوسرے کا اب آغاز ہے۔ بہتی گنگا میں بہت سوں نے ہاتھ دھوئے۔ بہتیروں نے دکھ جھیلے۔ ہمارے زمانے کا گائوں بڑا سادہ تھا ،ہر کام شہر سے ہوتا تھا ۔اب حکومت پنجاب نے دیہات میں عوام کو شہر کی طرز پر سہولیات فراہم کرنے کے لیے ’’اب گاؤں چمکیں گے‘‘ پروگرام شروع کیا ہے۔پروگرام دیکھ یورپ کے کسی گائوں کی تصویر کا گمان گزرتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت دیہات میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کا مربوط نظام تشکیل دیا جائے گا ۔ دیہات میں لوگوں کو بنیادی سہولتیں ان کی دہلیز پر فراہم کی جائیں گی۔ پروگرام کے تحت گاؤں میں رہنے والوں کو برتھ، ڈیتھ سر ٹیفکیٹ، شادی اور طلاق رجسٹریشن کے لیے دور دراز نہیں جانا پڑے گا۔ہر گاؤں میں چوکیداری کا بہترین نظام رائج کیا جائے گا اور گاؤں کی حالت سدھارنے کے لیے مقامی معززین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ گاؤں میں کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو حاصل ہوگا۔یورپ کی طرز پر ہر گاؤں سے وصول ہونے والا ریونیو،اسی گاؤں کی بہتری پر خرچ ہوگا۔ راقم مایوسی کا شکار نہیں؟ الحمدللہ ہرگز نہیں،کبھی نہ تھا۔ نکتہ یہ ہے کہ جاگے تو پوری قوم جاگتی ہے ، فقط ایک آدمی کے بدل جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔اہل دیہہ کو بھی حصہ ڈالنا ہو گا۔ اوورسیز پاکستانیوں کی بدولت میرا گائوں پہلے ہی روشن ہے ،صفائی کا مثالی نظام،غریبوں کی دیکھ بھال سبھی منصوبے شروع۔کدھر ویلفیئر ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے نوجوان نسل گائوں کو ایک ماڈل ویلج بنانے کی شاہراہ پر گامزن۔ حکومت پنجاب کو ان جوانوں سے بھی کچھ سیکھنا چاہیے۔ زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے دائرے میں، قدرت کا ایک نظام کارفرما ہے۔ اس کا ادراک نہ کرو تو خرابی شروع، بگاڑ لازم۔ نگران اور مستعد رہو تو خیر و برکت۔اس پروگرام کے بعدہم کہیں گے ۔ گلیاں دے ککھ میرے حال اتے ہسدے تقدیر نے شاماں پائیاں اج یاداں تیریاں آئیاں نے وطنان نوں آجا ڈھولنا