حزب اختلاف کے روایتی شور شرابے اور احتجاج کی گونج میں اگلے مالی سال کے لیے تقریباً ساڑھے آٹھ کھرب کا بجٹ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ بجٹ عام شہری کے لیے اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے، صرف ماہرین ہی حقائق کو قطعی طور پر سمجھنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ سیاست پر لکھنے والوںکی مگر مجبوری ہے کہ اس پر مغز ماری کرنا پڑتی ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب معاشی مفادات سیاست پر حاوی ہوں۔ ٹیکس کتنے لگائے گئے ، کس طبقے اور شعبے پر اور انہیں خرچ کس پر اور کہا ں کیا گیا ، اس سے کافی حد تک اندازہ ہوجاتا ہے کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھا ہے۔ مالیاتی خسارہ، شرح سود اور افراط زر کا آپس میں براہ راست تعلق ہے ،انکی شرح آس پاس رہتی ہے۔ موجودہ بجٹ کافی حد تک حقیقت پسندانہ ہے۔ اقتصادی شرح نمو چار عشایہ آٹھ فیصد رکھی گئی ہے۔ پچھلے سال کی کارکردگی کے دعوے کے تناظر میں احتیاط پسندی سے کام لیا گیا ہے ۔ مختلف شعبوں میں سامنے آنے والے شرح نمو کے رحجانات کو دیکھتے ہوئے اہداف بڑھا بھی دیے جاتے تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوتی لیکن ایک تو غیر یقینی کی کیفیت ابھی تک برقرار ہے دوسرے حکومت بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے کہ اب اگلے عام انتخابات سامنے کی بات ہیں۔ مثلا ً حکومت پر یقین نہیں ہے کہ اس وقت وافر مقدار میں پیداہونے والی بجلی کی لاگت کم کرسکے گی یا نہیں۔ اگر صنعتوں کو سستی توانائی میسر ہو تو نئے سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جاسکتی ہے اور موجودہ صنعتوں کی پیداوار بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔ رواں سال کی تقریبًا چار فیصد کی شرح نمو میں ایک بڑا حصہ صنعتی شعبے کا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ زراعت، جس سے غذائی تحفظ وابستہ ہے ، اسکے حالات بھی پتلے ہیں۔ پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے ایک تو زمینداروں کے منافع جات سکڑ گئے ہیں دوسرے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی کافی کنفیوژن پھیلی ہوئی ہے۔ فصل کی بوائی ، برداشت اور کٹائی ، کچھ بھی مستحکم نہیں رہا۔ پندرہ سے بیس دنوں کا فرق پڑگیا ہے۔ پتہ نہیں کب بارشیں شروع ہوجائیں یا پھر سوکھا پڑجائے۔ بہر حال ، سول حکومتیںکاروباری طبقوںکی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ زمینداروں کی دلجوئی کرنا نہیں بھولتیں۔ کھاد اور بیجوں پر سبسڈی مسلسل دے رہی ہیں۔ اس بجٹ میں بھی بارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ساتھ ہی سو ارب روپے کے لگ بھگ ڈیموں کی تعمیر کے لیے بھی مختص کیے گئے ہیں۔ اگر چہ برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ساتھ ہی درآمدات میں بھی یہ رحجان برقرار ہے۔ زر مبادلہ کی صورت حال بہتر بنانے میں سب سے اہم کردار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ہے جنہوں نے اپنی رقمیں جائز طریقوں سے ملک میں بھیجیں۔ ایف بی آر میں کی گئی اصلاحات بھی اپنا رنگ دکھانا شروع ہوگئی ہیں اور محصولات میں قابل قدر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حالات سنبھلنا شروع ہوئے ہیں تو حکومت بھی فراخدلی دکھانے سے باز نہیں رہی۔ سبسڈی کی مد میں کافی رقم رکھی گئی ہے، سماجی تحفظ کے پروگراموں کو وسعت دی جارہی ہے ، تنخواہوں اور پنشنوں میں کم از کم اتنا اضافہ کیا گیا ہے کہ افراطِ زر کے اثرات کو زائل کیا جاسکے این ایف سی ایوارڈ کی مد میں صوبوں کو دی جانے والی رقم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایک اہم بات ٹیکسوں کی مد میں دی جانیوالی چھوٹ ہے جس کا فائدہ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کو پہنچے گا۔ اس حوالے سے ٹیلیکام اور آٹو موبائل سیکٹر ز کی مصنوعات پر دی جانیولی رعایت قابل ذکر ہے۔ یوں پہلی دفعہ ایک سول حکومت متوسط اور کم آمدنی والے طبقے پر نئے ٹیکس نہ لگانے کے وعدے سے آگے بڑھ کر ٹیکسوں میں چھوٹ کے عملی اقدامات کی طرف آئی ہے۔ قومی سطح پر درخت لگانے کی مہم کو بھی جاری رکھا گیا ہے۔ یوں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حکومت اپنے ایجنڈے پر سست رفتار ی کے ساتھ سہی لیکن آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔ شاید یہ اتنا ہی کر سکتی ہے۔ مزید یہ وہ کرسکتی ہے جو ابھی تک نہیں کرپائی۔ یعنی غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری۔ بڑے ڈیموں کی تعمیر اس وقت صرف مخصوص مافیا کو ہی فائدہ دے سکتی ہے کہ ایک تو یہ منصوبے مہنگے اور طویل مدتی ہیں دوسرے ماحولیات کے لیے نقصان دہ ہیں۔ دنیا بھر میں ان سے جان چھڑائی جارہی ہے۔ توانائی کی پیداوار میں اضافے کے لیے دوسرے ذرائع موجود ہیں اور نسبتاً کم لاگت سے فوری پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔ چھوٹے ڈیموں کا معاملہ صوبائی ہے ، ویسے ہی جیسے زراعت کی ترقی کا۔ وفاق ان مدات میں خرچ کرنے کے بجائے ان شعبوں پر توجہ دے سکتا ہے جو اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اس جانب وفاقی حکومت کی توجہ مگر نہیں جا رہی۔ بہت سارے محکمے جو صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں ان سے بھی جان چھڑا ئی جاسکتی ہے، یوں جاری اخراجات کا حجم کم کیا جاسکتا اور وزیروں ،مشیروں کی فوج بھی کم کی جاسکتی ہے۔ صوبائی خودمختاری مشروط تھی مقامی حکومتوں کے نظام سے۔ وفاق نے پائیدار ترقی کے اہداف کو اگر قومی پالیسی کا حصہ بنا کر اقوام عالم سے داد و تحسین حاصل کی ہے تو اس کام کی تکمیل کے لیے مقامی حکومتوں کا قیام لازم ہے۔ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی وساطت سے دی جانیوالی رقم کو صوبائی فنانس کمیشننز کے ذریعے خود مختار مقامی حکومتوں کو منتقل کرانا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ اب اگر مقامی حکومتیں ہی موجود نہیں ہے تو یہ ذمہ داری کیسے پوری ہوگی؟ بلین ٹری منصوبہ اچھی بات ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں ، لیکن شہروں کو صاف نہیں رکھا جائیگا اور صنعتیں اپنا فضلہ ماحولیاتی اصولوں کے مطابق ٹھکانے نہیں لگائیں گی تو دریا تک آلودہ ہوجائیں گے اور لوگوں پر بھوک اور بیماری کا بوجھ کم نہیں ہوپائے گا۔ شہروں کے معاملات بہتر انداز میں چلیں گے تو ہی دیہات پر کسی کی توجہ جا پائیگی جہاں اس وقت بھی ملک کی پیشتر آبادی قیام پزیر ہے اور اسکا کوئی پرسان حال نہیں۔ لوگوں کو وسائل اور اختیارات میسر ہو نگے تب ہی پائیدار ترقی کی منزل کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ سندھ کو چلیں چھوڑیں، بقیہ تین صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مقامی حکومتوں کے قیام میں کونسی رکاوٹ ہے؟ مرکزیت اصل میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور غیر ترقیاتی اخراجات کی سب بڑی وجہ ہے۔ جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا تو بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہی رہیں گے۔